امام حسین علیہ السلام مدینہ میں



 Ø§Ø¨Ù† زبیر Ù†Û’ یہ کھا: میں ابھی آتا Ú¾ÙˆÚº لیکن اپنے گھر آکر Ú†Ú¾Ù¾ گئے Û” ولید Ù†Û’ قاصد کودوبارہ اس Ú©ÛŒ طرف روانہ کیا Û” اس Ù†Û’ ابن زبیر Ú©Ùˆ اپنے چاھنے والوں Ú©ÛŒ جھر مٹ میں پا یا جھاں وہ پناہ گزیں تھا۔ اس پر ولید Ù†Û’ مسلسل بلا Ù†Û’ والوں Ú©Û’ ذریعہ آنے پرتاکید Ú©ÛŒ ۔۔۔آخر کا ر ابن زبیر Ù†Û’ کھا :” لا تعجلو Ù†ÛŒ فانی آتیکم امھلونی“ جلد ÛŒ نہ کرو میں ابھی آرھا ھوں؛ مجھ Ú©Ùˆ تھوڑی سی مھلت دو Û” اسکے بعد وہ دن اور رات Ú©Û’ Ù¾Ú¾Ù„Û’ پھر تک مدینہ میں رھا اور یھی کھتا رھا کہ میں ابھی آرھا Ú¾ÙˆÚº ؛یھا Úº تک کہ ولیدنے پھر اپنے گر Ú¯ÙˆÚº Ú©Ùˆ ابن زبیر Ú©Û’ پاس روانہ کیا Û” وہ سب وھاںپھنچ کر اسے برا بھلا Ú©Ú¾Ù†Û’ Ù„Ú¯Û’ اور چیخ کر بولے : ائے کا ھلہ Ú©Û’ بیٹے ! خدا Ú©ÛŒ قسم تو فوراً آجا ورنہ امیر تجھ Ú©Ùˆ قتل کر دے گا۔ لوگوں Ù†Û’ زبر دستی Ú©ÛŒ تو ابن زبیر Ù†Û’ کھا :خدا Ú©ÛŒ قسم ان مسلسل پیغام لانے والوں Ú©ÛŒ وجہ سے میں بے چین ھوں؛ پس تم لوگ جلدی نہ کرومیں ابھی امیر Ú©Û’ پاس کسی ایسے شخص Ú©Ùˆ بھیجتا Ú¾ÙˆÚº جو ان Ú©ÛŒ رائے معلوم کر Ú©Û’ آئے ØŒ اس Ú©Û’ بعد فوراًاس Ù†Û’ اپنے بھائی جعفر بن زبیر Ú©Ùˆ روانہ کیا Û” اس Ù†Û’ جا کر کھا : اللہ آپ Ú©Ùˆ سلامت رکھے ØŒ عبداللہ سے دست بردار ھوجایئے، لوگوں Ú©Ùˆ بھیج بھیج کر آپ Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ خوف زدہ کر رکھا Ú¾Û’ØŒ وہ انشا Ø¡ اللہ Ú©Ù„ آپ Ú©ÛŒ خدمت میں حاضر Ú¾Ùˆ جائیں Ú¯Û’Û” اب آپ اپنے پیغام رساں سے کہئے کہ وہ ھمارا پیچھا Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دے، اس پر ولید Ù†Û’ آدمی بھیج کر قاصد Ú©Ùˆ جانے سے روک دیا Û”

ادھر ابن زبیر Û²Û· / رجب Ú©Ùˆ شب شنبہ امام حسین علیہ السلام Ú©Û’ نکلنے سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ Ú¾ÛŒ راتوں رات مدینے سے Ù†Ú©Ù„ گئے اور سفر Ú©Û’ لئے    نا معلوم راستہ اختیار کیا۔سفر کا ساتھی فقط انکا بھائی جعفر تھا اور کوئی تیسرا نھیں تھا Û” ان دونوں بھائیوں Ù†Û’ Ù¾Ú©Ú‘Û’ جانے Ú©Û’ خوف سے عام راستے پر چلنے سے گریز کیا اور ناھموار راستے سے Ú¾Ùˆ تے ھوئے مکہ Ú©ÛŒ طرف روانہ ھوگئے۔ ( تذکرةالخواص ØŒ ابن جوزی ،ص Û²Û³Û¶)

جب صبح ھوئی تو ولید نے اپنے آدمیوں کو پھر بھیجا لیکن ابن زبیر نکل چکے تھے۔ اس پر مروان نے کھا : خدا کی قسم وہ مکہ روانہ ھواھے اس پر ولید نے فوراً لوگوں کو اس کے پیچھے دوڑایا؛ اس کے بعد بنی ا میہ کے ۸۰ / گھوڑ سواروں کو ابن زبیرکی تلاش کے لئے بھیجا لیکن وہ سب کے سب خالی ھاتھ لو ٹے ۔

ادھر عبداللہ بن زبیر اپنے بھائی کے ھمراہ مشغول سفر ھیں۔ چلتے چلتے جعفر بن زبیر نے” صبرةالحنظلی“ کے شعر سے تمثیل کی:

 ÙˆÚ©Ù„ بنی اٴم سیمسون لیلة

 ÙˆÙ„Ù… یبق من اٴعقابھم غیر واحد

اس پر عبداللہ Ù†Û’ کھا :سبحان اللہ !بھائی اس شعر سے کیا کھنا چاھتے Ú¾Ùˆ ؟جعفر Ù†Û’ جواب دیا : بھائی ! میں Ù†Û’ کوئی ایسا ارادہ نھیں کیا Ú¾Û’ جو آپ Ú©Û’ لئے رنجش خاطرکاباعث Ú¾Ùˆ Û” اس پر عبداللہ Ù†Û’ کھا : خدا Ú©ÛŒ قسم مجھے یہ نا پسند Ú¾Û’ کہ تمھاری زبان سے کوئی ایسی بات Ù†Ú©Ù„Û’ جس کا تم Ù†Û’ ارادہ نہ کیا Ú¾ÙˆÛ”    

اس طرح ابن زبیر سفر کرتے رھے یھاں تک کہ مکہ پھنچ گئے۔ اس وقت مکہ کا حاکم عمرو بن سعید تھا۔ جب ابن زبیر وارد مکہ ھوئے تو عمرو بن سعیدسے کھا : میں نے آپ کے پا س پناہ لی ھے لیکن ابن زبیر نے کبھی ان لوگوں کے ساتھ نماز نھیں پڑھی اور نہ ھی کوئی افاضہ کیا بلکہ اپنے ساتھیوں کے ھمراہ ایک کنارے رھنے لگے اور نماز بھی تنھا پڑھنے لگے اور افاضہ بھی تنھا ھی رھا ۔( طبری ، ج۵،ص۳۴۳) اس واقعہ کو ھشام بن محمد نے ابی مخنف سے نقل کیا ھے۔ شیخ مفید نے ارشاد ،ص۲۰۱، اور سبط ابن جوزی نے تذکرة الخواص ،ص۲۳۶پر بھی اس واقعہ کا تذکرہ کیا ھے۔ وھاں یہ ملتا ھے کہ امام حسین علیہ السلام آئندہ شب میں اپنے بچوں ، جوانوں اور گھر االوں کے ھمراہ مدینہ سے باھرنکل گئے اور ابن زبیر سے دور ھی رھے اور سبط ابن جوزی ص ۲۴۵ پر ھشام اور محمد بن اسحاق سے رویت نقل کرتے ھیں کہ دو شنبہ کے دن ۲۸/ رجب کو امام علیہ السلام نکلے اورخوارزمی نے ص۱۸۶پر لکھا ھے کہ آپ ۳/ شعبان کومکہ پھنچے ۔

[34] طبری، ج۵ ، ص۳۳۸، ۳۴۱، ھشام بن محمد نے ابو مخنف سے روایت نقل کی ھے اور شیخ مفید نے بھی اس کو ذکر کیا ھے۔( ارشاد، ص ۲۰۱)

[35] خوارزمی ،ص۱۸۶



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 next