امام حسین علیہ السلام مدینہ میں



[36] طبری، ج ۵،ص۳۴۲، ابومخنف کا بیان ھے کہ یہ واقعہ مجھ سے عبدالملک بن نوفل بن مساحق نے ابوسعید مقبری کے حوالے سے نقل کیا ھے ، جن کازندگی نامہ پھلے بیان ھوچکاھے۔تذکرةالخواص ،ص۲۳۷

[37] محمد حنفیہ Ú©ÛŒ ماں خولہ بنت جعفر بن قیس ھیں جو قبیلہ Ø¡ بنی بکر بن وائل سے تعلق رکھتی ھیں۔(طبری ،ج، ۵، ص Û±ÛµÛ´) آپ جنگ جمل میں اپنے بابا علی مرتضیٰ علیہ السلام Ú©Û’ ھمراہ تھے۔ امام علی السلام Ù†Û’ آپ Ú©Û’ ھاتھوں میں علم دیا تھا (طبری ،ج ۵، ص Û´Û´Ûµ)آپ Ù†Û’ وھاںبھت دلیری Ú©Û’ ساتھ جنگ Ù„Ú‘ÛŒ اور قبیلہٴ ”ازد“کے ایک شخص کا ایک ھاتھ کاٹ دیا جو لوگوںکو جنگ پر اکسارھا تھا Û”(طبری، ج ۴،ص Û´Û±Û²) آپ جنگ صفین میں بھی موجودتھے اور وھاںعبید اللہ بن عمر Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ مبارزہ Ú©Û’ لئے طلب کیا تو حضرت علی علیہ السلام Ù†Û’ شفقت میں روکا کہ کھیں قتل نہ Ú¾Ùˆ جا ئیں۔ (طبری ،ج۵، ص۱۳) امام حسین علیہ السلام جب مکہ سے عراق جارھے تھے تو آپ مدینہ میں مقیم تھے۔ (طبری ،ج۵،ص۳۹۴) مختار آپ Ú¾ÛŒ Ú©ÛŒ نمائند Ú¯ÛŒ کا دعویٰ کر تے ھوئے کوفہ میں وارد ھوئے تھے۔ (طبری ،ج ۵،ص ÛµÛ¶Û± ) ابن حنفیہ Ú©Ùˆ اس Ú©ÛŒ خبر دی گئی اور ان سے اس سلسلے میں پوچھا گیا تو انھوںنے کھا : میں اس بات Ú©Ùˆ محبوب رکھتا Ú¾ÙˆÚº کہ خدا ئے متعال اپنے جس بندے Ú©Û’ ذریعہ چاھے ھمارے دشمن سے بد لہ لے۔جب مختار Ú©Ùˆ ابن حنفیہ Ú©Û’ اس جملہ Ú©ÛŒ اطلاع ملی تو انھوں Ù†Û’ جناب محمد حنفیہ Ú©Ùˆ امام مھدی کا لقب دیدیا Û”(طبری ،ج۶، ص Û±Û´) مختار ایک خط لیکرابراھیم بن مالک اشتر Ú©Û’   پا س گئے جو ابن حنفیہ سے منسوب تھا Û”(طبری ،ج ۶،ص Û´Û¶) اس کا تذکرہ ابن حنفیہ Ú©Û’ پاس کیا گیا تو انھوں Ù†Û’ کھا : وہ یہ سمجھ رھا Ú¾Û’ کہ ھمارا چاھنے والا Ú¾Û’ اور قاتلین حسین علیہ السلام تخت حکومت پر بیٹھ کر Ø­Ú©Ù… نا فذ کر رھے ھیں۔مختار Ù†Û’ یہ سنا تو عمر بن سعداور اس Ú©Û’ بےٹے Ú©Ùˆ قتل کر Ú©Û’ ان دو نوں کا سر ابن حنفیہ Ú©Û’ پاس روانہ کر دیا۔ (طبری، ج ۶،ص Û¶Û²) مختار Ù†Û’ ایک فوج بھیج کر ابن حنفیہ Ú©Ùˆ برانگیختہ کرنا چاھا کہ وہ ابن زبیر سے مقابلہ کریں لیکن محمد حنفیہ Ù†Û’ روک دیا اور خون بھا Ù†Û’ سے منع کر دیا۔ (طبری،ج۶،ص۷۴) جب یہ خبر ابن زبیر Ú©Ùˆ ملی تو اس Ù†Û’ ابن حنفیہ اور ان Ú©Û’ Û±Û·/رشتہ داروں Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ Ú©Ùˆ فیوں Ú©Û’ ھمراہ زمزم Ú©Û’ پاس قید کردیا اور یہ دھمکی دی کہ بیعت کریں ورنہ سب کوجلادیں Ú¯Û’Û” اس حالت Ú©Ùˆ دیکھ کر محمد حنفیہ Ù†Û’ Ú©Ùˆ فہ Ú©Û’ تین آدمیوں Ú©Ùˆ مختار Ú©Û’ پاس روانہ کیا اور نجات Ú©ÛŒ درخواست Ú©ÛŒ Û” خبر ملتے Ú¾ÛŒ مختار Ù†Û’ چار ہزار کا لشکرجو مال واسباب سے لیث تھا فوراً روانہ کیا ۔وہ لوگ پھنچتے Ú¾ÛŒ مکہ میں داخل ھوئے اور مسجدالحرام میں Ù¾Ú¾Ù†Ú† کر فوراً ان لوگوں Ú©Ùˆ قید سے آزاد کیا Û” آزاد کر Ù†Û’ Ú©Û’ بعد ان لوگوں Ù†Û’ محمدحنفیہ سے ابن زبیر Ú©Û’ مقابلہ میں جنگ Ú©ÛŒ اجازت مانگی تو محمد حنفیہ Ù†Û’ روک دیا اور اموال Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ درمیان تقسیم کردیا Û”(طبری ،ج ۶،ص Û¶Û· ) آپ شیعوں Ú©Ùˆ زیادہ روی سے روکا کرتے تھے۔ (طبری ،ج ۶،ص Û±Û°Û¶)  Û¶Û¸ Ú¾ میں حج Ú©Û’ موقع پر آپ Ú©Û’ پاس ایک مستقل پر Ú†Ù… تھا اور آپ فرمایا کر تے تھے: میں ایسا شخص Ú¾ÙˆÚº جو خود Ú©Ùˆ ابن زبیر سے دور رکھتا Ú¾Ùˆ Úº اور جو میرے ساتھ Ú¾Û’ اس Ú©Ùˆ بھی یھی کھتا ھوںکیو نکہ میں نھیں چاھتا کہ میرے سلسلے میں دو لوگ بھی اختلاف کریں Û”(طبری ،ج۶،ص۱۳۸) آپ جحاف Ú©Û’ سال تک زندہ رھے اور  ۶۵سال Ú©ÛŒ عمر میں طائف میں اس دنیا سے جاں بحق Ú¾Ùˆ گئے۔ ابن عباس Ù†Û’ آپ Ú©ÛŒ نماز پڑھائی Û”(طبری ،ج ۵،ص Û±ÛµÛ´ )

[38] طبری ،ج ۵ ، ص۳۴۱، ھشام بن محمد نے ابو مخنف سے یہ روایت کی ھے اور شیخ مفید نے بھی اس کا تذکرہ کیا ھے۔ (ارشاد،ص۲۰۲، خوارزمی ، ص۱۸۸،اور خوارزمی نے اعثم کوفی کے حوالے سے امام علیہ السلام کی وصیت ”امّا بعد فانّی لم اخرج ۔۔۔“کا اضافہ کیا ھے ۔اور وصیت میں ”سیرة خلفاء الراشدین “ کا اضافہ کیا ھے ۔

[39] طبری ، ج ۵،ص۲۴۰، ۲۴۱و ۳۸۱ پر بھی کوچ کرنے کی تاریخ یھی بیان کرتے ھیں جسے ابو مخنف نے صقعب بن زھیر کے حوالے سے اورانھوں نے عون بن ابی حجیفہ کے توسط سے نقل کیا ھے۔” ارشاد“ ، ص۲۰۹پر شیخ مفید اور تذکرة الخواص، ص۲۳۶پر سبط بن جوزی بیان کرتے ھیں : آئندہ شب امام حسین علیہ السلام اپنے جوانوں اور اھل بیت کے ھمراہ مدینہ سے سفر اختیار کیا در حالیکہ لوگ ابن زبیر کی وجہ سے آپ سے دست بردار ھوگئے تھے، پھرص۲۴۵ پر محمدبن اسحاق اور ھشام سے روایت نقل کرتے ھیںکہ آپ نے یکشنبہ کو جبکہ رجب کے تمام ھونے میں دو دن بچے تھے مدینے سے سفر اختیار کیا ،البتہ خوارزمی نے اپنے مقتل کے ص۱۸۹ پر لکھا ھے کہ رجب کے تین دن باقی تھے ۔

[40] قصص ، آیت۲۱

[41] قصص ، آیت ۲۲، طبری ج۵،ص، ۳۴۳ پرھشام بن محمد ابو مخنف سے نقل کر تے ھیں۔

[42] طبری ØŒ ج ۵، ص۳۴۲ میں یہ لفظ موجود Ú¾Û’ کہ ھشام بن محمد ابو مخنف سے نقل کرتے ھیں۔۔۔، پھر طبری کھتے ھیں کہ واقدی (متوفی Û²Û°Û·  ) کا گمان Ú¾Û’ کہ جب قاصد ،معاویہ Ú©ÛŒ موت Ú©ÛŒ خبر Ù„Û’ کر ولید Ú©Û’ پاس آیا تھا اس وقت ابن عمر مدینہ میںموجود Ú¾ÛŒ نھیں تھے اور یھی مطلب سبط بن جوزی Ù†Û’ بھی اپنی کتاب Ú©Û’ صفحہ Û²Û³Û· پر لکھاھے۔ ھاں ابن زبیر اور امام حسین علیہ السلام Ú©Ùˆ بیعت یزید Ú©Û’ لئے بلایا تو یہ دونوںاسی رات مکہ Ú©Ùˆ روانہ ھوگئے ؛ا Ù† دونوں سے ابن عباس اور ابن عمر Ú©ÛŒ ملاقات ھوئی،جو مکہ سے آرھے تھے تو ان دونوں Ù†Û’ ان دونوں سے پوچھا -: آپ Ú©Û’ پیچھے کیا Ú¾Û’ ØŸ تو ان دونوں Ù†Û’ کھا : معاویہ Ú©ÛŒ موت اور یزید Ú©ÛŒ بیعت ØŒ اس پر ابن عمر Ù†Û’ کھا : آپ دونوںتقوائے الٰھی اختیار کیجئے اور مسلمین Ú©ÛŒ جماعت Ú©Ùˆ متفرق نہ کیجئے ! اس Ú©Û’ بعد وہ آگے بڑھ گیا اور وھیں چند دنوں اقامت Ú©ÛŒ   یھا Úº تک کہ مختلف شھروںسے بیعت آنے Ù„Ú¯ÛŒ تو وہ اور ابن عباس Ù†Û’ پیش قدمی Ú©ÛŒ اور دونوں Ù†Û’ یزید Ú©ÛŒ بیعت کر لی“۔

[43] جیسا کہ معاویہ نے اپنی وصیت میں اور مروان نے ولید کو مشورہ دیتے ھوئے بتایا تھا کہ ایسا ھوگا اورویسا ھی ھوا ۔

[44] طبری ج ۵، ص۳۵۱، طبری کا بیان ھے کہ میں نے یہ حدیث ھشام بن محمد سے اور انھوں نے ابی مخنف سے نقل کی ھے ، ابو مخنف کابیان ھے کہ مجھ سے عبدالرحمن بن جندب نے اور عبد الرحمن بن جندب کا بیان ھے کہ مجھ سے عقبہ بن سمعان نے بیان کیا ھے جو امام حسین علیہ السلام کی زوجہ جناب رباب بنت امرء القیس کلبیہ کا غلام تھا۔ اس کے حالات پھلے بیان ھو چکے ھیں۔

[45] عبد اللہ بن مطیع قر شی کی ولادت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ھوئی ۔ جب اھل مدینہ نے یزید کے لشکر پر حملہ کیا تو یہ قریش کے ھمراہ تھا (طبری، ج ۵،ص ۴۸۱) پھر یہ ابن زبیر سے مکہ میں ملحق ھو گیا اور اس کے ھمراہ جنگ میں شرکت کی پھر ابن زبیر ھی کی جانب سے والی کوفہ مقرر ھوا ۔طبری، ج۵، ص۶۲۲، تاریخ یعقوبی ج۳،ص ۳و۵ ،تاریخ مسعودی ج ۳،ص ۸۳ ،مقتل خوارزمی ج ۲،ص ۲۰۲، یہ پورا واقعہ محمد بن اسحاق سے منقول ھے۔کوفہ میں مختار سے اس کا جھگڑا ھو گیا تو مختار نے اسے کوفہ سے نکال دیا۔ طبری ،ج۵، ص۳۱،عنقرب طبری کی یہ روایت بھی نظرسے گذرے گی کہ ھشام ، ابو مخنف سے اور وہ محمد بن قیس سے نقل کرتے ھیں کہ ایک دوسری مرتبہ بھی ابن مطیع نے امام علیہ السلام سے مقام ”حاجر “کے بعد اور مقام ”زرود“ سے قبل پانی کے کسی چشمہ پر ملاقات کی ھے ۔طبری، ج ۵ ، ص ۳۹۵ ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 next