شب عاشور کی روداد



اس Ú©Û’ بعد امام حسین علیہ السلام Ù†Û’ اپنی تقریر پھر شروع Ú©ÛŒ :” فان کنتم في Ø´Ú© من ھٰذا القول اٴفتشکون اٴثراً بعد؟  اٴما اني ابن بنت نبیکم فواللّٰہ مابین المشرق والمغرب ابن بنت نبّي غیري منکم ولا من غیرکم ØŒ انا ابن بنت نبیکم خا صة۔“

”ٴاخبروني اٴتطلبوني بقتیل منکم قتلتہ ؟ اٴو مال استھلکتہ اٴو بقصاص من جراحة ؟ فاٴ خذوا لا یکلّمونہ ۔۔۔ “

فنادی : یا شبث بن رِبعی ویا حجّار بن ابجَر و یا قیس بن الاشعث ویا یزید بن الحارث[27] اٴلم تکتبوا اِليَّ : اٴن قد اٴینعت الثمار و اخضرّ الجناب و طمّت الجمام وانما تقدم علی جند لک مجند فا قبل ؟!

قالوا لہ : لم نفعل![28] فقال : سبحان اللّٰہ !بلیٰ واللّہ لقد فعلتم،ثم قال : ایھاالناس ! اذاکرھتموني فد عونياٴنصرف عنکم الیٰ مامنيمن الارض۔

فقال لہ قیس بن اشعث : اٴولا تنزل علی حکم بني عمّک ! فانھم لن یروک الاما تحب ولن یصل الیک منھم مکروہ!

فقال الحسین علیہ السلام :اٴنت اخواٴخیک(محمد بن اشعث ) اٴتریداٴن یطلبک بنو ھاشم باٴکثر من دم مسلم بن عقیل ØŸ لا واللّٰہ لا اٴعطیھم بیدياعطاء  Ø§Ù„ذلیل ولا اٴقرّ ا قرار العبید![29]

عباداللّہ ”وَاِنِّيْ عْذْتْ بِرَبِّیْ وَ رَبِّکُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنَ[30] اٴعُوذُبِرَبِّی وَرَبِّکُمْ مِنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لا یُوْمِنُ بِیوْمِ الْحِسَاب“[31]

 Ø§ÙˆØ± اگر تمھیںرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ú©ÛŒ حدیث میں Ø´Ú© Ú¾Û’ تو کیا اس میں بھی Ø´Ú© Ú¾Û’ کہ میں تمھارے نبی کا نوسہ Ú¾ÙˆÚº ØŸ خدا Ú©ÛŒ قسم مشرق Ùˆ مغرب میںمیرے سوا کوئی نبی کا نواسہ نھیں ھے،فقط میں Ú¾ÛŒ Ú¾ÙˆÚº جو تمھارے نبی کا نواسہ ھوں۔ذرا بتاوٴ تو سھی میرے قتل پر کیوں آمادہ Ú¾Ùˆ ØŸ کیا اپنے کسی مقتول کا بدلہ Ù„Û’ رھے Ú¾Ùˆ جو میرے ھاتھوں قتل ھوا Ú¾Û’ یا اپنے کسی مال کا مطالبہ رکھتے Ú¾Ùˆ جسے میں Ù†Û’ تلف کردیا Ú¾Û’ ØŸ یا کسی زخم کا قصاص چاھتے Ú¾Ùˆ ØŸ

لشکر پر خا موشی چھائی تھی، کسی نے کوئی جواب نھیں دیا، پھر حضرت نے خاص طور پر لوگوں کو آواز دی : اے شبث بن ربعی ، اے حجار بن ابجر ، اے قیس بن اشعث اور اے یزید بن حارث کیا تم لوگوں نے مجھے یہ نھیں لکھا تھا کہ میوے پختہ اور رسیدہ ھیں ، کھیتیاں لھلھارھی ھیں ، چشمے پُر آب اور لشکر آپ کی مدد کے لئے تیار ھیں، آپ چلے آئےے ؟ ان سب نے امام علیہ السلام کو جواب دیا : ھم نے تو ایسا کچھ بھی نھیں لکھا تھا ، توامام علیہ السلام نے فرمایا : سبحان اللہ ! کیوں نھیں خدا کی قسم تم لوگوں نے لکھا تھا اور ضرور لکھا تھا؛پھر عام لشکر کی طرف مخاطب ھوکر گویا ھوئے : جب تمھیں میرا آنا ناگوار ھے تو مجھے واپس ایسی جگہ چلے جانے دو جھاں امن وامان کے ساتھ زندگی گذار سکوں ۔

یہ سن کر قیس بن اشعث بولا : آپ اپنے چچا زادبھائیوں کے حکم کے آ گے سر تسلیم کیوں خم نھیں کردیتے ۔وہ لوگ ھرگز آپ کے ساتھ کچھ بھی نھیں کریں گے مگر یہ کہ وھی جو آپ کوپسند ھوگا اور ان کی جانب سے آپ کو کوئی ناپسندامر نھیں دکھائی دے گا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 next