شب عاشور کی روداد



حرنے سوال کیا :  ”اٴفمالکم في واحد Ø© من الخصال التی عرض علیکم رضا !“ کیاان مشورں میںسے کوئی ایک بھی تمھارے لئے قابل قبول نھیں Ú¾Û’ Û”

عمربن سعد نے جواب دیا:” اٴماواللّٰہ لوکان الامر اليّلفعلت ولکن اٴمیرک قداٴبیٰ ذالک“ خداکی قسم اگر یہ کام میرے ھاتھ میںھوتا تومیںاسے ضرورقبول کرتا لیکن میں کیاکروں کہ تمھار اامیر اس سے انکا ر کرتاھے ۔

یہ سن کر حر نے کنارہ کشی اختیار کرلی او رایک جگہ پر جاکر کھڑاھوگیااس کے ھمراہ ا موی فوج کا ایک سپاھی قرہ بن قیس[38]بھی تھا ۔حر نے قرّہ سے کھا:”یاقرّہ ! ھل سقیت فرسک الیوم ؟“اے قرہ ! کیاتو نے آج اپنے گھوڑے کو پانی پلایا؟ قرہ نے جواب دیا : نھیں ! حر نے کھا : پھر تو ضرور پلانے کا ارادہ رکھتاھوگا ؟

قرہ کا بیان ھے : خدا کی قسم میں یہ سمجھا کہ وہ وھاں سے دور ھونا چاھتا ھے اور جنگ میں شریک ھونانھیں چاھتا اور اسے بھی ناپسند کرتا ھے کہ جب وہ یہ کام انجام دے تو میں وھاں موجود رھوں کیونکہ اسے خوف تھا کہ کھیں میں اس کی خبر وھاں نہ پھنچادوں ۔

 Ø¨Ú¾Ø± حال میں Ù†Û’ اس سے کھا: میں Ù†Û’ تو ابھی اسے پانی نھیں پلایا Ú¾Û’ ؛اب اسے Ù„Û’ جارھاھوں تاکہ پانی پلادوں؛ یہ کہہ کر میں Ù†Û’ اس جگہ Ú©ÙˆÚ†Ú¾ÙˆÚ‘ دیا جھاں وہ موجود تھا۔ خدا Ú©ÛŒ قسم! اگر مجھے اس Ú©Û’ ارادہ Ú©ÛŒ اطلاع ھوتی تو میں اس Ú©Û’ ھمراہ حسین( علیہ السلام) Ú©Û’ Ú¾Ù… رکاب ھوجاتا Û”

ادھر حر Ù†Û’ آھستہ آھستہ امام حسین علیہ السلام Ú©ÛŒ طرف نزدیک ھوناشروع کیا۔حر Ú©ÛŒ یہ کیفیت دیکھ کر اموی لشکر Ú©Û’ ایک فوجی مھاجر بن اوس [39]Ù†Û’ آپ سے کھا : اے فرزند یزید تمھارا ارادہ کیا Ú¾Û’ ØŸ کیا توکسی پر حملہ کرنا چاھتا Ú¾Û’ ØŸ تو حر خاموش رھا اور وہ اس طرح لرزہ بر اندام تھا جیسے بجلی کڑکتی Ú¾ÙˆÛ” Û” مھاجر بن  اوس Ù†Û’ پھر کھا: اے فرزند یزید تمھارا ارادہ کیا Ú¾Û’ ØŸ خدا Ú©ÛŒ قسم تمھارا کام Ø´Ú© میں ڈالنے والا Ú¾Û’Û” خدا Ú©ÛŒ قسم جنگ Ú©Û’ وقت میں Ù†Û’ کبھی بھی تمھاری ایسی حالت نھیں دیکھی جیسی ابھی دیکھ رھاھوں، اگر مجھ سے پوچھا جاتا کہ اھل کوفہ میں سب سے شجاع اور دلیر کون Ú¾Û’ تو میں تیرا نام لیتالیکن اس وقت میں جوتیری حالت دیکھ رھاھوں وہ کیا Ú¾Û’ ØŸ

حرنے کھا : ”انّيواللّہ اٴخیر نفسي بین الجنة والنار ، واللّٰہ لا اختار علی الجنة شےئاً ولو قطعت وحرّقت ! “خدا کی قسم میں خود کو جنت و جھنم کے درمیان مختار دیکھ رھاھوں اور خدا کی قسم میں جنت پر کسی دوسری چیز کو اختیار نھیں کروں گا چاھے مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا جلا دیا جائے۔

پھر حر Ù†Û’ اپنے Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘Û’ پر ایک ضرب لگائی اور خود Ú©Ùˆ حسینی لشکر تک پھنچادیا اور امام حسین (علیہ السلام)  Ú©ÛŒ خدمت میں عرض کیا :”جعلنی اللّٰہ فداک یا بن رسول اللّٰہ ! اٴنا صاحبک الذی حبستک عن الرجوع وسایرتک فی الطریق ØŒ Ùˆ جعجعت بک فی ھذاالمکان ØŒ واللّٰہ الذي لاالہ الا Ú¾Ùˆ ما ظننت اٴن القوم یردون علیک ما عرضت علیھم اٴبداً ولا یبلغون منک ھذہ المنزلة فقلت في نفسي : لا اٴبا لي اٴن اٴطیع القوم فی بعض اٴمرھم ØŒ ولا یرون اني خرجت من طاعتھم ØŒ واٴما Ú¾Ù… فسیقبلون من حسین علیہ السلام ھذہ الخصال التی یعرض علیھم ØŒ واللّٰہ لو ظننت اٴنھم لا یقبلونھا منک ما رکبتھا منک ØŒ واني قد جئتک تائباً مما کان مني الی ربيّ ومواسیاًلک بنفسي حتی اٴموت بین یدیک ØŒ اٴفَتَریٰ ذلک لي توبة ØŸ! “

اے فرزند رسول خدا ! میری جان آپ پر نثار ھو ! میں ھی وہ ھوں جس نے آپ کو پلٹنے سے روکا اور آپ کے ھمراہ راستے میں یھاں تک چل کر آیا ، میں ھی وہ ھوں جو آپ کو اس خشک اور جلتے ھوئے صحرا میں لے کر آیا۔قسم ھے اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی معبود نھیں، میں گمان بھی نھیں کر رھاتھا کہ یہ لوگ آپ کے منطقی مشورہ اور صلح آمیز گفتگوکو قبول نھیں کریں گے، میرے تصور میں بھی یہ نہ تھا کہ یہ لوگ آپ کو اس منزل تک پھنچادیں گے میں اپنے آپ میں کہہ رھاتھا چلو کوئی بات نھیں ھے کہ اس قوم کی اس کے بعض امرمیں اطاعت کر لیتا ھوں تاکہ وہ لوگ یہ سمجھیں کہ میں ان کی اطاعت سے باھر نھیں نکل آیا ھوں۔میں ھمیشہ اسی فکر میں تھا کہ آپ جو مشورہ دیں گے اسے یہ لوگ ضرور قبول کرلیں گے۔خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ھوتا کہ یہ لوگ آپ سے کچھ بھی قبول نھیں کریں گے تو میں کبھی بھی اس کا مرتکب نہ ھوتا۔اے فرزند پیغمبر ! اب میں آپ کی خدمت میں حاضر ھوں اور ھر اس چیز سے خدا کی بارگاہ میں توبہ کرتا ھوں جو میں نے انجام دیا ھے اور اپنے تمام وجود کے ساتھ آپ کی مدد کروں گا ؛یھاں تک کہ مجھے آپ کے سامنے موت آجائے۔ کیا آپ کی نگاہ میں میری توبہ قابل قبول ھے ؟

امام حسین علیہ السلام Ù†Û’ فرمایا :” نعم ØŒ یتوب اللّٰہ علیک Ùˆ یغفر Ù„Ú©!  مااسمک؟“ ھاں تمھاری توبہ قبول Ú¾Û’ØŒ اللہ بھی تمھاری توبہ قبول کرے اور تمھیں بخش دے ! تمھارا نام کیا Ú¾Û’ ØŸ



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 next