شب عاشور کی روداد



ھارون الرشید اس زمانے میں مھدی کی جانب سے بصرہ کا والی تھا ، پس مھدی نے حکم دیا کہ ھارون کوایک خط لکھا جائے۔ اس خط میں مھدی نے حکم دیا کہ آل زیاد کا نام قریش و عرب کے دیوان سے نکال دیا جائے۔ مھدی کے خط کا متن یہ تھا : قبیلہ ثقیف کے خاندان عبد آل علاج کی ایک فرد عبید کے لڑکے زیاد کو خود سے ملحق کرنے کی معاویہ بن ابی سفیان کی رائے اور اس کا دعو یٰ ایسا تھا جس سے اس کے مرنے کے بعد تمام مسلمانوں نے اوراس کے زمانے میں بھی کافی لوگوں نے انکار کیاکیونکہ وہ لوگ اھل فضل ورضا اور صاحبان علم وتقویٰ تھے اور انھیں زیاد ،زیاد کے باپ اور اس کی ماں کے بارے میں سب کچھ معلوم تھا ۔

 Ù…عاویہ Ú©Û’ لئے اس کام کا باعث ورع Ùˆ ھدایت یا ھدایت گر سنت Ú©ÛŒ اتباع نھیں تھی اور نہ Ú¾ÛŒ گزشتہ ائمہ حق Ú©ÛŒ پیروی Ù†Û’ اسے اس بات Ú©ÛŒ دعوت دی تھی؛ اسے توبس اپنے دین اور اپنی آخرت Ú©Ùˆ خراب کرنے کا شوق تھا اور وہ کتاب Ùˆ سنت Ú©ÛŒ مخا لفت پر مصمم ارادہ کرچکا تھا۔ زیاد Ú©Û’ سلسلہ میں خوش بینی سے پھولانھیں سماتا تھا کہ زیاد اپنے کام میں جلد باز نھیں Ú¾Û’ØŒ وہ نافذالقول Ú¾Û’ اور باطل پر معاویہ Ú©ÛŒ مدد اور پشت پناھی میں اس Ú©ÛŒ امیدوں پر کھرا اترتا Ú¾Û’ جب کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ ) وسلم Ù†Û’  فرمایاتھا : بچہ جس بستر پرپیدا Ú¾Ùˆ اسی کا Ú¾Û’ اور زناکارکا حق سنگ سار ھونا Ú¾Û’ اور آپ Ù†Û’ فرمایا: جو اپنے باپ Ú©Û’ علاوہ کسی دوسرے Ú©Û’ نام سے پکارا جائے اور جو اپنے موالی Ú©Û’ علاوہ کسی دوسرے سے منسوب Ú¾Ùˆ تو اس پر خدا، فرشتوں اور تمام انسانوں Ú©ÛŒ لعنت ھو؛ خدا وند عالم نہ تو اس Ú©ÛŒ توبہ قبول کرے گااورنہ Ú¾ÛŒ اس کا فدیہ قبول ھوگا۔قسم Ú¾Û’ میری جان Ú©ÛŒ کہ زیاد نہ تو ابوسفیان Ú©ÛŒ گود میں پیدا ھوا نہ Ú¾ÛŒ اس Ú©Û’ بستر پر ØŒ نہ Ú¾ÛŒ عبید ابوسفیان کا غلام تھا ØŒ نہ سمیہ اس Ú©ÛŒ کنیز تھی ØŒ نہ Ú¾ÛŒ یہ دونوں اس Ú©ÛŒ ملک میں تھے اور نہ Ú¾ÛŒ یہ دونوں کسی اور سبب Ú©ÛŒ بنیاد پر اس Ú©ÛŒ طرف منتقل ھوئے تھے لہذا معاویہ Ù†Û’ زیاد Ú©Ùˆ اپنے سے ملحق کرنے Ú©Û’ سلسلہ میں جو Ú©Ú†Ú¾ بھی انجام دیا اور جو اقدامات کئے سب میںاس Ù†Û’ امر خدا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ ) وسلم Ú©ÛŒ مخالفت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ اور اپنی ھواو ھوس Ú©ÛŒ پیروی، حق سے روگردانی اور جانب داری کا ثبوت دیا Ú¾Û’Û” خدا وند متعال فرماتا Ú¾Û’:” ومن اٴضل ممن اتبع ھواہ بغیرھدی من اللّٰہ ان اللّٰہ لایھدی القوم الظالمین  “( قصص / ÛµÛ°)اور اس Ù†Û’ جناب داود علیہ السلام Ú©Ùˆ جب Ø­Ú©Ù…ØŒ نبوت، مال اور خلافت عطا کیا تو فرمایا:”  یاداوٴد اناجعلناک خلیفةً فی الارض فاحکم بین الناس بالحق“ْْ(ص/ Û²Û¶) اور جب معاویہ Ù†Û’   ( جسے اھل حفظ احادیث بخوبی جانتے ھیں ) موالی بنی مغیرہ مخزومین سے مکالمہ کیا جب وہ لوگ نصر بن حجاج سلمی Ú©Ùˆ خو د سے ملحق کرنا چاھتے تھے اور اسے اپنے قبیلے والا کھنا چاھتے تھے تو معاویہ Ù†Û’ اپنے بستر Ú©Û’ نیچے پتھرآمادہ کرکے رکھا تھا جو ان Ú©ÛŒ طرف رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  خدا Ú©Û’ قول للعاھرالحجرکی بنیاد پر پھینکنے لگا۔ تو ان لوگوں Ù†Û’ کھا Ú¾Ù… Ù†Û’ توتجھے زیاد Ú©Û’ سلسلے میں جو تو Ù†Û’ کیا اس میں حق جو ازدید یا کیا تو ھمیں ھمارے فعل میں جو Ú¾Ù… اپنے ساتھی Ú©Û’ ساتھ کرنا چاھتے ھیں حق جواز نھیں دے گا ØŸ تو معاویہ Ù†Û’ کھا : رسول خدا صلی اللہ علیہ(وآلہ ) وسلم کا فیصلہ تم لوگوں Ú©Û’ لئے معاویہ Ú©Û’ فیصلہ سے بھتر Ú¾Û’Û”( طبری ،ج۱ ،ص Û±Û³Û±) یھاں سے معلوم ھوتا Ú¾Û’ کہ ھدایت اور امام علیہ السلام Ú©ÛŒ دعوت کا مثبت جواب دینے سے قبل اگر چہ زھیر بن قین عثمانی تھے؛ لیکن زیاد Ú©Ùˆ خود سے ملحق کر Ù†Û’ اور حجر بن عدی Ú©Ùˆ قتل کرنے پر وہ معاویہ سے ناراض تھے لہٰذا ان کا نفس آمادہ تھا کہ وہ عثمانی مذھب سے Ù†Ú©Ù„ جائیں نیز اس Ú©ÛŒ بھی آماد Ú¯ÛŒ تھی کہ معاویہ اور اس Ú©Û’ بےٹے یزید اور ا س Ú©Û’ گرگوں Ú©Û’ خلاف اظھار ناراضگی کریں اور امام علیہ السلام Ú©ÛŒ دعوت قبول کریں اور وہ راستہ ترک کر دیں جس پر ابھی تک Ú†Ù„ رھے تھے۔

[36] امام علیہ السلام نے مومن آل فرعون کی تشبیہ اس لئے دی کہ آپ پھلے عثمانی تھے گویا قوم بنی امیہ سے متعلق تھے۔

[37] ابو مخنف کھتے ھیں کہ مجھ سے علی بن حنظلہ بن اسعد شبامی نے اپنی ھی قوم کے ایک فرد سے یہ روایت نقل کی ھے جو امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے وقت وھاں حاضر تھا ،جسے کثیر بن عبداللہ شعبی کھتے ھیں؛ اس کا بیان ھے : جب ھم حسین کی طرف ھجوم آور ھوئے تو زھیر بن قین ھماری طرف آئے اور خطبہ دیا۔ (طبری ،ج۵ ،ص ۴۲۶) یعقوبی نے بھی اس خطبہ کو ج۲،ص ۲۳۰ ،طبع نجف پر ذکر کیا ھے ۔

[38] امام حسین (علیہ السلام)  Ú©Û’ کربلامیںواردھونے Ú©Û’ بیان میں اس شخص Ú©Û’ حالات گزرچکے ھیںاوریہ کہ حبیب بن مظاھر Ù†Û’ اسے امام علیہ السلام Ú©ÛŒ نصرت Ùˆ مدد Ú©ÛŒ دعوت دی تھی تو اس Ù†Û’ سونچنے کا وعدہ دیاتھالیکن واپس نھیں پلٹا۔ ظاھر Ú¾Û’ کہ ناقل خبر یھی Ú¾Û’ اور اپنے سلسلہ میںخود Ú¾ÛŒ مدعی Ú¾Û’ Û”

[39] شعبی کے ھمراہ یہ زھیر بن قین کا قاتل ھے۔( طبری ،ج۵، ص ۴۴۱ )

[40] ایک احتمال تو یہ ھے کہ چونکہ حر اسلحہ سے لیس تھا اور شرم سے اپنا سر جھکائے تھا لہذا امام علیہ السلام نے اسے نھیں پھچانا اور سوال کیا ورنہ آپ حر کو پھلے سے پھچانتے تھے۔ دوسرا احتمال یہ بھی ھوسکتا ھے کہ آپ حر کے نام سے صفت کا استفادہ کرنا چاھتے تھے لہٰذا نام پوچھا ورنہ جو اوصاف اس نے بتائے تھے اس سے تو ھر آدمی سمجھ سکتا ھے کہ آنے والا حر ھی تھا۔ (مترجم )

[41] الارشاد ØŒ ص ۲۳۵، ا  لتذکرہ ،ص Û²ÛµÛ²

[42] ابو جناب کلبی اور عدی بن حرملہ سے یہ روایت منقول ھے۔( طبری ، ج۵ ،ص ۴۲۷، ارشاد، ص ۲۳۵ )

[43] ابو مخنف کا بیان ھے کہ مجھ سے فضیل بن خدیج کندی نے یہ روایت نقل کی ھے کہ یزید بن زیاد وھی ابو شعشاء کندی ھے جو قبیلہ بھدلہ سے متعلق تھا۔ (طبری، ج۵ ،ص ۴۴۵ )



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23