کربلا میں آغاز جنگ



میں علی ، حسین بن علی کا فرزند ھوں ، رب کعبہ کی قسم ھم نبی سے سب سے زیادہ نزدیک ھیں، خدا کی قسم بے حسب ونسب باپ کا لڑکا ھم پر حکمرانی نھیں کرسکتا ۔

 Ø§Ù“Ù¾ Ù†Û’ بارھادشمن Ú©Û’ قلب لشکر پر حملہ کیا اوران رزمیہ اشعار Ú©Ùˆ دھراتے رھے۔جب مرہ بن منقذعبدی [49]Ù†Û’ آپ Ú©Ùˆ دیکھا تو بولا : تمام عرب کا گناہ میرے سر پر Ú¾Ùˆ !اگر یہ میرے پاس سے گزرا تومیں اس Ú©Û’ ساتھ ویسا Ú¾ÛŒ سلوک کروں گا جیسا یہ کررھا Ú¾Û’Ø› اس Ú©Û’ باپ کوا س Ú©Û’ غم میں بےٹھادوں گا! اس اثنا Ø¡ میںآپ اپنی تلوار سے سخت حملہ کرتے ھوئے ادھر سے گزرے، پس مرہ بن منقذنے نیزہ کاایسا وار کیا کہ آپ زمین پر گرگئے دشمنوں Ù†Û’ آپ Ú©Ùˆ چاروں طرف سے گھیر لیا اور اپنی تلواروں سے آپ Ú©Û’ جسم Ú©Û’ Ù¹Ú©Ú‘Û’ Ù¹Ú©Ú‘Û’ کردئےے Û”[50]Ùˆ[51]

امام حسین علیہ السلا Ù… خو Ù† میں ڈوبے فرزند Ú©Û’ پاس یہ کھتے ھوئے آئے:” قتل اللّٰہ قوماً قتلوک یا بني“ اے میرے لال !خدا اس قوم Ú©Ùˆ قتل کرے جس Ù†Û’ تجھے قتل کیاھے،”  مااٴجراٴھم علیٰ الرّحمٰن وعلی انتھاک حرمة الرسول“یہ لوگ مھربان خدا پر اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  Ú©ÛŒ ھتک حرمت پر کتنے بے باک ھیں،”علی الدنیا بعدک العفا“۔ میرے لا Ù„ تمھارے بعد اس دنیا Ú©ÛŒ زندگی پر خاک Ú¾ÙˆÛ” ناگاہ اس اثناء میں ایک بی بی شتاباں خیمے سے باھر Ù†Ú©Ù„ÛŒ وہ آوز دے رھی تھی:” یااٴخیاہ ! Ùˆ یابن اٴخیاہ “ اے میرے بھائی اے جان برادر!وہ آئیں اور خود Ú©Ùˆ علی اکبر پر گرادیا تو حسین علیہ السلام ان Ú©Û’ پاس آئے اور ان کا ھاتھ Ù¾Ú©Ú‘ کر انھیں خیمے میںلوٹا دیا اور خود ھاشمی جوانوں Ú©ÛŒ طرف رخ کر Ú©Û’ کھا :” احملوا اٴخاکم الی الفسطاط“ اپنے بھائی Ú©Ùˆ اٹھاکر خیمے میں Ù„Û’ جاوٴ ”فحملوہ من مصرعہ حتی Ùˆ ضعوہ بین یدی الفسطاط الذی کانوا یقاتلون اٴمامہ“ [52]

 Ø§Ù† جوانوں Ù†Û’ لاشہ علی اکبر Ú©Ùˆ مقتل سے اٹھا کراس خیمے Ú©Û’ پاس رکھ دیا جس Ú©Û’ آگے وہ لوگ مشغول جھاد تھے Û”

قاسم بن حسن کی شھادت

حمید بن مسلم کا بیان ھے : ھماری جانب ایک نو جوان نکل کر آیا ،اس کا چھرہ گویا چاند کا ٹکڑا تھا، اس کے ھاتھ میں تلوار تھی، جسم پر ایک کرتہ اور پائجامہ تھا،پیروں میں نعلین تھی جس میں سے ایک کا تسمہ ٹوٹا ھو ا تھا اور مجھے اچھی طرح یاد ھے کہ وہ بائیں طرف والی نعلین تھی۔

عمر وبن سعد بن نفیل ازدی [53]Ù†Û’ مجھ سے کھا :خدا Ú©ÛŒ قسم میں اس بچہ پر ضرور حملہ کروں گا تو میں Ù†Û’ کھا : ”سبحان اللّٰہ“ تو اپنے اس کام سے کیاچاھتا ھے۔لشکر کا یہ انبوہ جو اس Ú©Ùˆ اپنے گھیرے میں لئے Ú¾Û’ تیری خواھش پوری کرنے Ú©Û’ لئے کافی Ú¾Û’ لیکن اس Ù†Û’ اپنی بات پھر دھرائی : خدا Ú©ÛŒ قسم میں اس پر ضرور حملہ کروں گا، یہ کہہ کر اس Ù†Û’ اس جوان پر زبردست حملہ کردیا اورتھوڑی دیرنہ گزری تھی کہ تلوار سے اس Ú©Û’ سر پر ایک ایسی ضرب لگائی کہ وہ منہ Ú©Û’ بھل زمین پرگر پڑا اور آواز دی :”  یا عماہ ! “اے چچا مدد Ú©Ùˆ آےئے۔

یہ سن کر امام حسین علیہ السلام شکاری پرندے Ú©ÛŒ طرح وھاں نمودار ھوئے اور غضب ناک Ùˆ خشمگین شیر Ú©ÛŒ طرح دشمن Ú©ÛŒ فوج پر ٹوٹ Ù¾Ú‘Û’ اور عمرو پر تلوار سے حملہ کیا۔ اس Ù†Û’ بچاوٴ Ú©Û’ لئے ھاتھ اٹھا یا تو کھنیوں سے اس Ú©Û’ ھاتھ Ú©Ù¹ گئے یہ حال دیکھ کر لشکر ادھر ادھر ھونے لگا اور وہ شقی ( عمر Ùˆ بن سعد) پامال Ú¾Ùˆ کر مر گیا۔ جب غبار چھٹا تو امام حسین علیہ السلام قاسم Ú©Û’ بالین پر موجود  تھے اور وہ ایڑیاں رگڑ رھے تھے Û”

اور حسین علیہ السلام یہ کہہ رھے تھے : بعداً لقوم قتلوک ومن خصمھم یوم القیامة فیک جدک ، عزّ واللّٰہ علیٰ عمک اٴن تدعوہ فلا یجیبک اٴو یجیبک ثم لا ینفعک صوت واللّٰہ کثر واترہ و قل ناصرہ“ برا ھو اُس قوم کا جس نے تجھے قتل کردیا اور قیامت کے دن تمھارے دادااس کے خلاف دعو یدار ھوں گے۔تمھارے چچا پر یہ بھت سخت ھے کہ تم انھیں بلاوٴ اور وہ تمھاری مدد کو نہ آسکیں اور آئے بھی تو تجھے کوئی فائدہ نہ پھنچا سکے۔خدا کی قسم تمھاری مد د کی آواز آج ایسی ھے کہ جس کی غربت و تنھائی زیادہ اور اس پر مدد کرنے والے کم ھیں ۔

پھر حسین (علیہ السلام) نے اس نوجوان کو اٹھایا گویا میں دیکھ رھا تھا کہ اس نوجوان کے دونوں پیر زمین پر خط دے رھے ھیں جبکہ حسین نے اس کا سینہ اپنے سینے سے لگارکھا تھا پھر اس نوجوان کو لے کر آئے اور اپنے بےٹے علی بن الحسین کی لاش کے پاس رکھ دیا اور ان کے اردگرد آپ کے اھل بیت کے دوسرے شھید تھے، میں نے پوچھا یہ جوان کون تھا ؟ تو مجھے جواب ملا : یہ قاسم بن حسن بن علی بن ابیطالب (علیھم السلام) تھے۔ [54]

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 next