کربلا میں آغاز جنگ



[24] حمید کھتا ھے کہ شمر نے پوچھا :تو کون ھے؟ تو میں ڈر گیا کہ اگر اس نے مجھے پھچان لیا توبادشاہ کے پاس مجھے نقصان پھنچائے گا لہٰذا میں نے کہہ دیا : میں نھیں بتاوٴں گا کہ میں کون ھوں ۔

[25] ٓپ کا تعلق قبیلہ ھمدان سے ھے۔ آپ کوفہ میں ان اموال کی جمع آوری کررھے تھے جو شیعہ حضرات جناب مسلم کو مدد کے طور پردے رھے تھے اور جناب مسلم ھی کے حکم سے اس سے اسلحے خرید رھے تھے۔( طبری ،ج۵ ،ص ۳۶۴ ) اپنے قیام کے وقت جناب مسلم نے آپ کو تمیم اور ھمدان کا سربراہ قرار دیا تھا۔( طبری، ج ۵، ص۳۶۹) آپ ھی وہ ھیں جس نے کربلا میںعمر بن سعد کے پیغام رساں کو امام حسین علیہ السلام کو پھچنوایا تھا کہ یہ عزرہ بن احمسی ھے اور عرض کیا تھا کہ آپ کے پاس اھل زمین کابد ترین انسان آرھاھے جو خون بھانے میں اور دھوکہ سے قتل کرنے میں بڑا جری ھے اور آپ ھی نے اسے امام حسین علیہ السلام تک آنے سے اس خوف میںروکا تھا کہ کھیںوہ امام علیہ ا لسلام پر حملہ نہ کردے۔(طبری، ج۵ ،ص۴۱۰ )

[26] آپ کا شمار کوفہ Ú©Û’ ان زعمائے شیعہ میں ھوتا Ú¾Û’ جنھوں Ù†Û’ امام حسین علیہ السلام Ú©Ùˆ خط لکھاتھا۔ ( طبری ،ج۵ ،ص Û³ÛµÛ² ) آپ Ù†Û’ مسلم بن عقیل Ú©Ùˆ امام علیہ السلام Ú©Û’ لئے یہ کہہ کر جواب دیا تھا : قسم Ú¾Û’ اس خدا Ú©ÛŒ جس Ú©Û’ علاوہ کوئی معبود نھیں میں بھی ÙˆÚ¾ÛŒ کھتا Ú¾ÙˆÚº جو انھوں Ù†Û’ کھا اور عابس بن شبیب شاکری Ú©ÛŒ Ú©ÛŒ طرف اشارہ کیاتھا ( طبری ،ج۵، ص Û³ÛµÛµ ) کربلا میں عمر بن سعد Ú©Û’ پیغام رساں قرہ بن قیس حنظلی تمیمی سے آپ Ù†Û’ کھا تھا : واے Ú¾Ùˆ تجھ پر اے قرہ بن قیس ! تو ظالموں Ú©ÛŒ طرف کیوں کر پلٹ رھاھے، تو اس ذات Ú©ÛŒ مدد کر جس Ú©Û’ آباء واجداد Ú©ÛŒ وجہ سے اللہ Ù†Û’ تجھے اور ھمیں دونوں Ú©Ùˆ کرامت عطا Ú©ÛŒ Ú¾Û’Û”(طبری، ج۵،ص Û´Û±Û± ) جب نو محرم Ú©Ùˆ شام میںسپاہ اموی عمر بن سعد Ú©ÛŒ سالاری میں امام حسین علیہ السلام پر حملہ آور ھوئی تھی تو عباس بن علی علیھماالسلام بیس (Û²Û°)سواروں Ú©Û’ ھمراہ ان لوگوں Ú©Û’ پاس گئے جن بیس میں جناب حبیب بھی تھے۔ حبیب Ù†Û’ اس وقت فرمایاتھا : خدا Ú©ÛŒ قسم Ú©Ù„ قیامت میںوہ قوم بھت بری Ú¾ÙˆÚ¯ÛŒ جس Ù†Û’ یہ قدم اٹھایا Ú¾Û’ کہ ذریت Ùˆ عترت واھل بیت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)   Ú©Ùˆ قتل کردیا جو اس شھر ود یار Ú©Û’ بھت عبادت گزار ØŒ سحر خیزی میںکوشاں اور اللہ کا بھت ذکر کرنے والے ھیں۔( طبری، ج ۵، ص Û´Û²Û² ) جب آپ مسلم بن عوسجہ Ú©Û’ زخمی جسم پر آئے اور مسلم Ù†Û’ امام علیہ السلام Ú©ÛŒ نصرت Ú©ÛŒ وصیت Ú©ÛŒ تو آپ Ù†Û’ فرمایا : رب کعبہ Ú©ÛŒ قسم میں اسے انجام دوں گا Û”(طبری ،ج۵، ص Û´Û³Û¶ )امام حسین علیہ السلام Ù†Û’ آپ Ú©Ùˆ بائیں محاذ کا سالار بنایا تھا Û”( طبری، ج۵،ص Û´Û²Û² ) حصین بن تمیم آپ Ú©Û’ قتل پر فخر Ùˆ مباھات کررھا تھا اور آپ Ú©Û’ سر Ú©Ùˆ Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘Û’ Ú©Û’ سینے سے لٹکا دیا تھا۔ آپ Ú©Û’ بےٹے قاسم بن حبیب Ù†Û’ قصاص Ú©Û’ طور پر آپ Ú©Û’ قاتل بدیل بن صریم تمیمی Ú©Ùˆ قتل کردیا ،یہ دونوں با جمیرا Ú©ÛŒ جنگ میں مصعب بن زبیر Ú©ÛŒ فوج میں تھے Û”

[27] ابو مخنف نقل کرتے ھیں کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ھے ۔

[28] جب بدیل نے سر کاٹ لیا تو حصین اس سے بولا : میں بھی اس کے قتل میں شریک ھوں۔ بدیل بولا : خدا کی قسم میرے علاوہ کسی دوسرے نے اسے قتل نھیں کیا ھے تو حصین نے کھا اچھا یہ سر مجھے دے دو تاکہ میں اسے گھوڑے کی گردن میں لٹکادوں تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں اور جان لیں کہ میں بھی اس کے قتل میںشریک ھوں ۔ پھر تم اسے لے کر عبیداللہ بن زیاد کے پاس چلے جانا۔ وہ جو تمھیں اس کے قتل پر عطایا اور بخشش سے نوازے گا مجھے اس کی کوئی حاجت نھیں ھے لیکن بدیل نے اس سے انکار کیا تو پھر ان کی قوم نے اس مسئلہ میںان دونوں کے درمیان صلح کرائی جس کے نتیجے میں اس نے حبیب بن مظاھر کا سر حصین بن تمیم کو سونپ دیا اور حصین اپنے گھوڑے کی گردن میں جناب حبیب کا سر لٹکائے پوری فوج میںچکر لگانے لگا پھر اس کے بعد یہ سر بدیل کو لوٹا دیا ۔ جب یہ لوگ کوفہ لوٹے تو بدیل نے اپنے گھوڑے کے سینے سے حبیب کے سرکو لٹکا دیا اوراسی حال میںابن زیاد کے محل میں حضوری دی ۔

قاسم بن حبیب جوابھی جوان تھے انھوں نے یہ منظر دیکھا تواس سوار کے ساتھ ساتھ ھوگئے اوراسے کسی طرح نھیں چھوڑرھے تھے تو بدیل مشکوک ھوگیااور بولا : اے بچے تجھے کیا ھوگیا ھے کہ میرا پیچھا پکڑے ھے ؟ قاسم نے کھا : یہ سر جو تمھارے ساتھ ھے یہ میرے بابا کا سر ھے۔ کیا تم مجھ کو عطا کروگے تاکہ میںاسے دفن کردوں ؟ بدیل: اے بچے امیر اس سے راضی نہ ھوگا کہ یہ سر دفن کیا جائے۔ میںتو یہ چاھتا ھوںکہ ان کے قتل پر امیر مجھے اس کی اچھی پاداش دے۔اس نوجوان بچے نے جواب دیا : لیکن خدا اس پر تمھیں بھت برا عذاب دے گا ،خدا کی قسم تم نے اپنی قوم کے بھترین شخص کو قتل کردیا اور پھر وہ بچہ رونے لگا ۔ یہ واقعہ گزر گیا اور روزگار اسی طرح گزرتے رھے یھاں تک کہ جب مصعب بن زبیر نے” با جمیرا“ میں جنگ شروع کی تو قاسم بن حبیب بھی اس کے لشکر میںداخل ھوگئے تو وھاں آپ نے اپنے باپ کے قاتل کو ایک خیمے میں دیکھا۔ جب سورج بالکل نصف النھار پر تھا آپ اس کے خیمے میںداخل ھوئے وہ سورھا تھا تو آپ نے تلوار سے اس پر وارکر کے اس کو قتل کردیا۔ ( طبری ،ج۵،ص۴۴۰ )

[29] شاید یہ نماز قصر ھو نہ کہ نماز خوف ، شیخ مفیدۺ نے اپنی روایت میںفقط نماز کا تذکرہ کیا۔( ارشاد ،ص ۲۳۸ ، تذکرہ ، ص ۵۲ ۲)

[30] سبط بن جوزی نے اس کی روایت کی ھے۔( تذکرہ، ص ۲۵۳، طبع نجف )

[31] آپ ÙˆÚ¾ÛŒ ھیں جس Ù†Û’ کوفہ Ú©Û’ راستہ میں اپنا گھوڑا طرماح بن عدی Ú©Û’ ھاتھوں امام علیہ السلام Ú©Û’ پاس روانہ کیا تھا۔( ج ۵، ص Û´Û°Ûµ ) جب امام اور اصحاب امام علیہ السلام پر پیاس Ú©ÛŒ شدت ھوئی تو امام (علیہ السلام) Ù†Û’ عباس بن علی علیھما السلام Ú©Ùˆ بلایا اورآ Ù¾ Ú©Ùˆ Û³Û°/ سواروں اور Û²Û° / پیدلوں Ú©Û’ ھمراہ روانہ کیا، ان Ú©Û’ آگے نافع بن ھلال موجود تھے تو عمر وبن حجاج Ù†Û’ آپ Ú©Ùˆ مرحبا کھتے ھوئے کھا : پانی Ù¾ÛŒ لو، تمھیںپانی پینا مبارک Ú¾Ùˆ تو آپ Ù†Û’ کھا نھیں، خدا Ú©ÛŒ قسم میں اس میں سے ایک قطرہ بھی نھیں Ù¾ÛŒ سکتا جب کہ حسین ابھی پیاسے ھیں۔  ( طبر،ی ج۵، ص Û´Û±Û²) اور جب علی بن قرظہ ØŒ عمر بن قرظہ کا بھائی حسین علیہ السلام پر حملہ آور ھوا تو نافع بن ھلال مرادی Ù†Û’ اس پر اعتراض کیا اور اس Ú©Ùˆ ایک ایسا نیزہ مارا کہ وہ وھیں ڈھیر ھوگیا Û”

[32] سورہ غافر / ۳۱ و ۳۲



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 next