کربلا میں آغاز جنگ



۲۔معنوی شوکت    

دنیا میں ایک سے ایک بھادر ØŒ پھلوان ØŒ شجاع اور خوبصورت گزرے ھیں۔ اگر Ú¾Ù… ابو الفضل عباس Ú©Ùˆ فقط اس نگاہ سے دیکھیں کہ آپ رشید قامت ØŒ ھلالی ابرو ØŒ ستواںناک اور گلابی ھونٹوں والے تھے تو تاریخ Ú©Û’ پاس ایسے سینکڑوں نمونے ھیں جو خوبصورت بھی تھے اور بھادر بھی لیکن ابولفضل العباس علیہ السلام Ú©ÛŒ خصوصیت فقط یہ نہ تھی کہ آپ فقط خوبصورت اور بھادر تھے بلکہ آپ Ú©ÛŒ اھم خصوصیت جو آپ Ú©Ùˆ گوھر نایاب بناتی Ú¾Û’ وہ آپ کا باطنی جوھر اور باطنی حسن Ú¾Û’ یعنی آپ کا ایمان ØŒ اخلاص ØŒ مردانگی ØŒ انسان دوستی ØŒ سچائی ØŒ امانت داری ØŒ آزادی ØŒ عدالت خواھی ØŒ تقویٰ ØŒ حلم ØŒ جانثاری اور وہ پیروی محض Ú¾Û’ جو اپنے امام علیہ السلام Ú©Û’ سامنے پیش Ú©ÛŒ Ú¾Û’ Û” تاریخ میں ایک بھادر ØŒ دلیر اور شجاع کا اتنے سخت اور دل ھلادینے والے حوادث میں اس قدر تابع اور مطیع ھونا کھیں نھیں ملتا اور نہ ملے گا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام Ù†Û’ آپ Ú©ÛŒ بلند Ùˆ بالا شخصیت Ú©ÛŒ اس طرح منظر Ú©Ø´ÛŒ Ú©ÛŒ Ú¾Û’:”کان عمنا العباس نافذ البصیرة ØŒ صلب الایمان ØŒ جاھد مع اخیہ الحسین علیہ السلام  واٴبلی بلاء حسناًو مضی شھیداً “( عمدة الطالب، Û³ÛµÛ¶)  ھمارے چچا عباس عمیق بصیرت والے اور محکم صاحب ایمان تھے جس میں کوئی تزلزل نہ تھا، آپ Ù†Û’ اپنے بھائی حسین علیہ السلام Ú©Û’ ھمراہ جھاد کیا اور بلاوٴں Ú©ÛŒ آماجگاہ میں بھتر ین امتیاز حاصل کیا اور شھید Ú¾Ùˆ گئے ۔امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں :” رحم اللّٰہ العباس فلقد آثر وابلیٰ وفدا اٴخاہ بنفسہ حتی قطعت یداہ فاٴبدلہ اللّٰہ عزو جل بھما جناحین یطیر بھما مع الملائکة فی الجنة کما جعل لجعفر بن ابیطالب وان للعباس عنداللّٰہ تبارک وتعالٰی منزلة یغبطہ بھا جمیع الشھداء یوم القیامة“ (خصال شیخ صدوق Ûº ج۱؛ ص Û¶Û¸)  

خدا (ھمارے چچا ) عباس پر رحمت نازل کرے، حقیقت تو یہ ھے کہ آپ نے نا قابل وصف ایثار کا ثبوت دیا اور بزرگ ترین آزمائش میں کامیاب ھوکر سر بلند و سرفراز ھوگئے اور آخر کار اپنی جان کو اپنے بھائی پر نثار کردیا یھاں تک کہ آپ کے دونوں ھاتھ کٹ گئے تو اللہ عز و جل نے اس کے بدلے آپ کو دو پر عطا کئے جس کی مدد سے آپ جنت میں فرشتوں کے ھمراہ پرواز کرتے ھیں جس طرح خدا نے جعفر بن ابوطالب کو پر عطا کئے تھے ۔

اللہ تباک و تعالی کے نزدیک جناب عباس کی وہ قدر و منزلت ھے کہ قیامت کے دن تمام شھداء آپ پر رشک کریں گے ۔

Û³Û” علمدار کربلا  

آپ کی ایک اھم فضیلت یہ ھے کہ روز عاشوراآپ حسینی لشکر کے علمدار تھے اور یہ اتنا بلند و بالا مرتبہ ھے کہ آسانی سے کسی کو نھیں ملتا ۔

جنگ Ú©Û’ بدترین ماحول میں آپ اجازت Ù„Û’ کر میدان کارزار میں آئے لیکن سرکار سیدالشھداء Ú©Ùˆ آپ سے اتنی محبت تھی کہ فقط فراق Ùˆ جدائی Ú©Û’ تصور Ù†Û’ امام (علیہ السلام)  Ú©ÛŒ آنکھوں Ú©Û’ جام Ú©Ùˆ لبریز کردیا اور سیل اشک جاری ھوگئے؛ یھاں تک کہ آپ Ú©ÛŒ ریش مبارک آنسووٴ Úº سے ترھوگئی پھر فرمایا :” اخی اٴنت العلامة من عسکری“میرے بھائی تم تو میرے لشکر Ú©Û’ علمدار ھوتو حضرت عباس علیہ السلام Ù†Û’ فرمایا :” فداک روح اٴخیک لقد ضاق صدری من حیاة الدنیا واٴرید آخذ الثار من ھولاء المنافقین“ آپ Ú©Û’ بھائی Ú©ÛŒ جان آپ پر نثار Ú¾Ùˆ ØŒ حقیقت یہ Ú¾Û’ کہ دنیا Ú©ÛŒ زندگی سے میرا سینہ تنگ ھوچکا Ú¾Û’ میں چاھتا Ú¾ÙˆÚº کہ ان منافقوں سے انتقام لوں Û”

۴۔ سقائی

آپ کی ایک فضیلت یہ ھے کہ آپ سقا کے لقب سے نوازے گئے اور حسینی لشکر کی پیاس بجھانے کے لئے پانی کی سبیل کی خاطر نھر فرات کی طرف دشمنوں کے نرغے میں چل پڑے ،۔بچوں کی تشنگی نے آپ کے دل کو برمادیا۔ امام حسین علیہ السلام سے میدان جنگ کی اجازت چاھی تو آپ نے فرمایا : ”فاطلب لھولاء الاٴطفال قلیلاً من الماء“ بھائی اگر میدان میں جانا چاھتے ھو تو ان بچوں کے لئے دشمنوں سے تھوڑا سا پانی طلب کرو ۔

۵۔سالار عشق و ایمان

عبا س غازی کی یھی وہ صفت ھے جو آپ کو دوسرے ساونت اوردلیروں سے جدا کرکے بھادری اور شجاعت کا حقیقی پیکر بناتی ھے۔ آپ کی جگہ پر کوئی بھی بھادر ھوتا تو وہ میدان جنگ میں آتے ھی تلوار سونت کر جنگ میں مشغول ھوجاتا لیکن یہ عباس پروردہ ٴآغوش تربیت علی مرتضیٰ ھیں جسمی توانائی کے علاوہ ان کا قلب تقویٰ ، اخلاق ، علم وحلم سے معمور ھے، اسی لئے جب میدان میں آئے تو پھلے سردار لشکر عمر بن سعد کو ھدایت کی، راہ دکھائی اور اس سے مخاطب ھو کر کھا :” یا عمر بن سعد ! ھٰذا الحسین ابن بنت رسول اللّٰہ قد قتلتم اٴصحابہ و اٴخوتہ وبنی عمہ وبقی فریداً مع اٴولادہ و عیالہ وھم عطاشا، قد اٴحرق الظماء قلوبھم فاسقوھم شربة من الماء لاٴن اٴولادہ و اٴطفالہ قد و صلوا الی الھلاک“۔اے عمر بن سعد ! یہ حسین نواسہ رسول ھیں جن کے اصحاب ، بھائیوں اور چچا زادگان کو تم لوگوں نے قتل کردیا ھے اور وہ اپنی اولاد اور عیال کے ھمراہ تنھارہ گئے ھیں اور بھت پیاسے ھیں ۔ پیاس سے ان کا کلیجہ بھنا جا رھا ھے لہٰذاانھیںتھوڑا ساپانی پلادو؛ کیوں کہ ان کی اولاد اور بچے پیاس سے جاں بہ لب ھیں۔ آپ کے ان جملوں کا اثر یہ ھواکہ بعض بالکل خاموش ھوگئے ، بعض بے حد متاثر ھو کر رونے لگے لیکن شمر و شبث جیسے شقاوت پیکروں نے تعصب کی آگ میں جل کر کھا :” یابن اٴبی تراب ! قل لاٴ خیک : لو کان کل وجہ الارض ماءً وھوتحت اٴید ینا ما سقیناکم منہ قطرة حتی تدخلوا فی بیعة یزید“ اے ابو تراب کے فرزند ! اپنے بھائی سے کہہ دوکہ اگر ساری زمین پانی پانی ھوجائے اور وہ ھمارے دست قدرت میں ھو تب بھی ھم تم کو ایک قطرہ پانی نھیں پلائیں گے یھاں تک کہ تم لوگ یزید کی بیعت کرلو۔

۶۔ اسلام کا غیرت مند سپاھی

حضرت عباس علیہ السلام اموی سپاہ Ú©ÛŒ غیر عاقلانہ اور جاھلانہ گفتگوپر افسوس کر Ú©Û’ اپنے آقا Ú©Û’ پاس لوٹ آئے اور سارے واقعات سے آگاہ کردیا Û”   

امام حسین علیہ السلام قرآن اور خاندان رسالت Ú©ÛŒ تنھائی پر آنسو بھا Ù†Û’ Ù„Ú¯Û’ اور اتنا روئے کہ یہ آنسو آپ Ú©Û’ سینے اور لباس پر ٹپکنے Ù„Ú¯Û’ ۔دوسری طرف ننھے بچوں Ú©ÛŒ صدائے العطش  بار بار حضرت عباس Ú©Û’ کانوں سے ٹکرا رھی تھی۔ یہ وہ موقع تھا جب اسلام کا یہ غیر تمند سپاھی اپنے Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘Û’ پرسوار ھوا اور خیمہ سے مشکیزہ Ù„Û’ کر دلیرانہ اور صفدرانہ انداز میں لشکر پر ٹوٹ پڑا۔عمر بن سعد Ù†Û’ خاندان رسالت پر پانی بند کرنے Ú©Û’ لئے چار (Û´) ہزار کا رسالہ فرات Ú©Û’ کنارے تعینات کر رکھا تھا اور وہ کسی طرح اصحاب واولاد حسین علیہ السلام Ú©Ùˆ پانی تک Ù¾Ú¾Ù†Ú†Ù†Û’ نھیں دے رھے تھے ۔علمدار لشکر حسینی Ù†Û’ اسی رسالہ پر حملہ کیا۔ آپ جو امیر المو منین علیہ السلام Ú©ÛŒ ایک نشانی تھے اپنی ناقابل وصف شجاعت وشھامت Ú©Û’ ساتھ دشمن Ú©ÛŒ فوج کوتتر بتر کردیا ،فوج Ú©Û’ پھرے Ú©Ùˆ بالکل تو ڑدیا اور ان میں سے اسی (Û¸Û°) لوگوں Ú©Ùˆ قتل کردیا جوان میں سب سے زیادہ شریر تھے Û”

آپ کی شجا عانہ آوازفضا میں گونج رھی تھی :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 next