کربلا میں آغاز جنگ



سبط بن جو زی کا بیان Ú¾Û’ کہ پھر حسین ملتفت Ú¾Ùˆ ئے کہ ایک بچہ پیاس Ú©ÛŒ شدت سے رورھا Ú¾Û’ تو آپ اسے اپنے ھاتھ پر Ù„Û’ کر دشمنوں Ú©Û’ سامنے گئے اور فر مایا :” یا قوم ان لم تر حمو ني فارحمواھٰذا الطفل“ اے قوم ! اگر تم لوگوں Ú©Ùˆ مجھ پر رحم نھیں آتاتو اس بچہ پر رحم کرولیکن اس Ú©Û’ جواب میں دشمن Ú©ÛŒ فوج میں سے ایک Ù†Û’ اس بچہ پر تیر چلادیا جس سے وہ ذبح ھوگیا ۔یہ صورت حال دیکھ کر حسین علیہ السلام رودےئے اور Ú©Ú¾Ù†Û’ Ù„Ú¯Û’ : ”اللّٰھم احکم بیننا وبین القوم دعونا لینصرونا فقتلونا“ خدایا!تو ھمارے اور اس قوم Ú©Û’ درمیان فیصلہ کر جس Ù†Û’ ھمیں دعوت دی کہ Ú¾Ù… آپ Ú©ÛŒ نصرت Ùˆ مدد کریں Ú¯Û’ لیکن اس Ù†Û’ ھمیں قتل کردیا۔ اسی درمیان فضامیں ایک آوازگونجی” دعہ یا حسین! فان لہ مرضعاً فی الجنة“ اے حسین ! اس بچہ Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دو کیونکہ جنت میںاسے دودھ پلانے والی موجود Ú¾Û’Û”  (تذکرہ ،ص ۲۵۲، طبع نجف)

 Ø§Ù† تینوں روایتوں سے یہ بات ثابت ھوتی Ú¾Û’ کہ کربلا میں ایسے تین بچے شھید ھوئے ھیں جو شیر خوار یا اس سے Ú©Ú†Ú¾ بڑے تھے اور ابو مخنف Ù†Û’ فقط ایک شیر خوار کا تذکرہ کیا Ú¾Û’ جسے طبری Ù†Û’ ذکر کیا ھے۔اس روایت Ú©ÛŒ بنیاد پر جناب علی اصغر Ú©ÛŒ روایت اور امام حسین علیہ السلام کا انھیں میدان میں Ù„Û’ جانے سے انکار نھیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ واقعہ سبط بن جوزی Ú©ÛŒ زبانی ثابت Ú¾Û’ لہٰذا اگر کوئی آغوش میں شھید ھونے والے واقعہ Ú©Ùˆ پڑھتا Ú¾Û’ یا لکھتا Ú¾Û’ تو اس کا مطلب ھرگز یہ نھیں Ú¾Û’ کہ وہ حضرت علی اصغر Ú©ÛŒ شھادت کا منکر Ú¾Û’ اور نہ Ú¾ÛŒ حضرت علی اصغر Ú©ÛŒ شھادت کا ذکر کرنے والوں Ú©Ùˆ اس پر مصر ھونا چاھےے کہ شیر خوار بچے Ú©Û’ عنوان سے فقط یھی شھید ھوئے ھیں۔ان Ú©Û’ علاوہ دو بچے اور بھی ھیں جو تیر ستم کا نشانہ بنے ھیں۔ ( مترجم )

[58] آپ کی مادر گرامی جمانة بنت مسیب بن نجبہٴ غزاری تھیں۔ ( طبری ،ج ۵، ص ۴۶۹ ) مسیب بن نجبہ کا شمار کوفہ کے شیعوں میں توابین کے زعماء میں ھوتا ھے۔ ابو الفرج اصفھانی کا بیان ھے کہ آپ کی مادر گرا می عقیلہ بنی ھاشم زینب بنت علی بن ابی طالب ( علیھم السلام )تھیں (ص۶۰ ،طبع نجف ) ۔

[59] آپ کی مادر گرامی خوصاء بنت خصفہ بن ثقیف تیمی خاندان بکر بن وائل سے متعلق تھیں۔( طبری ،ج۵،ص ۴۶۹) ابوالفرج نے بھی یھی لکھا ھے ( ص ۶۰ ،طبع نجف )لیکن سبط بن جوزی نے حوط بنت حفصہ التمیمی لکھاھے۔ (تذکرہ، ص ۲۵۵ ، ط نجف )

[60] مختار نے ان دونوں کی طرف عبداللہ بن کامل کو روانہ کیا۔ ادھر یہ دونوں جزیرہ یعنی موصل کی طرف نکلنے کا ارادہ کررھے تھے تو عبداللہ بن کامل اور دوسرے لوگ ان دونوں کی تلاش میں نکلے اورمقام جبانہ میں انھیں پالیا۔ وھاں سے ان دونوں کو لے کر آئے اور جعد کے کنویں کے پاس لے گئے اور وھیں ان دونوں کی گردن ماردی اور آگ میں جلادیا ۔ اعشی ھمدان نے ان دونوں پر مرثیہ کھا ھے (طبری، ج۶، ص ۵۹ ) لیکن طبری نے جلد ۵، ص ۴۶۹ پر لکھا ھے کہ عبدالرحمن بن عقیل کو فقط عثمان بن خالد جھنی نے قتل کیا ھے اوربشر بن حوط ھمدانی ان کے ھمراہ اس کے قتل میں شریک نہ تھا لیکن اسی سند سے ابوالفرج نے دونوں کو ذکر کیا۔ ( ص، ۶۱،طبع نجف )

[61] طبری نے ج۵، ص ۴۶۹ پر لکھ اھے کہ آپ کو بشر بن حوط بن ھمدانی نے شھید کیا اور ج۶، ص ۶۶۵ پر عبداللہ بن عروہ خثعمی لکھا ھے۔ مختار نے اس شخص کو طلب کیا تو یہ آپ کے ھاتھ سے نکل کر مصعب سے ملحق ھوگیا۔ابولفرج نے بعینہ اسی سند کے حوالے سے عبداللہ بن عروہ خثعمی لکھا ھے۔ (ص ۶۱طبع نجف )

[62] مختار Ù†Û’ اسے طلب کیا تو یہ رات میں اس وقت لایا گیا جب آنکھیں نیند کا مزہ Ù„Û’ رھی تھی۔ اس وقت یہ چھت پر تھا تاکہ پھچانا نہ جا سکے۔ اسے پکڑا گیا درحالیکہ اس Ú©ÛŒ تلوار اسکے سر Ú©Û’ نیچے تھی Û” Ù¾Ú©Ú‘Ù†Û’ والے Ù†Û’ اس سے کھا خدا تیری تلوار کا برا کرے جو تجھ سے کتنی دور Ú¾Û’ اور کتنی نزدیک Û” وہ کہہ رھاتھا کہ میں Ù†Û’ ان لوگوں پر نیزہ چلایا Ú¾Û’ مجروح کیا Ú¾Û’ لیکن کسی Ú©Ùˆ قتل نھیں کیا Ú¾Û’Û” اسے مختار Ú©Û’ پاس لایا گیا، مختار Ù†Û’ اسے اسی قصر میں قید کر دیا Û” جب صبح ھوئی تو لوگوں Ú©Ùˆ دربارمیں آنے Ú©ÛŒ اجازت ملی اور لوگ دربار میںداخل ھونے Ù„Ú¯Û’ تو وہ قیدی بھی لایا گیا۔ اس Ù†Û’ کھا : اے گرو ہ کفار Ùˆ فجار ! اگر میرے ھاتھ میں تلوار ھوتی تو تمھیں معلوم ھوجاتا کہ میں تلوار Ú©ÛŒ نوک سے لرزہ براندام نھیں ھوتا اورنہ Ú¾ÛŒ خوف زدہ ھوتا Ú¾ÙˆÚºÛ” میرے لئے کتنا باعث سرور Ú¾Û’ کہ میری موت قتل Ú¾Û’Û” خلق خدا میں مجھے تم لوگوں Ú©Û’ علاوہ کوئی اور قتل کرے گا Û” میں جانتا Ú¾ÙˆÚº کہ تم لوگ بد ترین مخلوق خدا Ú¾Ùˆ مگر مجھے اس Ú©ÛŒ آرزو تھی کہ میرے ھاتھ میں تلوار ھوتی تو میں اس سے تم لوگوں Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ دیر تک مارتا ،پھر اس Ù†Û’ اپنا ھاتھ اٹھایا اور ابن کامل جو اس Ú©Û’ پھلو میں تھے اس Ú©ÛŒ آنکھ پر طمانچہ لگایا،اس پرابن کامل ھنس پڑااور اس کا ھاتھ Ù¾Ú©Ú‘ کر اسے روک دیا پھر گویا ھوا : اس کا گمان یہ Ú¾Û’ کہ اس Ù†Û’ آل محمد Ú©Ùˆ زخمی کیا Ú¾Û’ اور نیزہ چلایا Ú¾Û’ لہٰذا اس Ú©Û’ فیصلہ Ú©Ùˆ Ú¾Ù… Ù†Û’ آپ پرچھوڑ دیا Ú¾Û’Û” مختار Ù†Û’ کھا : میرا نیزہ لاوٴ ! فوراً نیزہ لایا گیا، مختار بولے : اس پر نیزہ سے وار کرو یھاں تک کہ یہ مرجائے پس اتنا وار ھوا کہ وہ مرگیا Û”( طبری ،ج۶، ص Û¶Ûµ)لیکن طبری Ù†Û’ ج۵،ص Û´Û¶Û¹ پر  ابو مخنف سے روایت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ اس Ù†Û’ عبداللہ بن عقیل بن ابیطالب علیھم السلام Ú©Ùˆ قتل کیا Ú¾Û’ اور ج۶،ص Û¶Û´ پر روایت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ جس Ù†Û’ عبداللہ بن مسلم بن عقیل Ú©Ùˆ قتل کیا وہ زید بن رقاد جنبی Ú¾Û’ اور وہ یہ کھا کرتا تھا کہ میں Ù†Û’ تمھارے ایک جوان پر تیر چلایا جب کہ وہ اپنی ھتھیلی Ú©Ùˆ اپنی پیشانی پر رکھے ھوئے تھا اور میں Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ ھتھیلی Ú©Ùˆ اس Ú©ÛŒ پیشانی سے چپکا دیا اس طرح سے کہ وہ اپنی ھتھیلی Ú©Ùˆ اپنی پیشانی سے جدا نہ کرسکا جب اس Ú©ÛŒ پیشانی اس طرح ھتھیلی سے Ú†Ù¾Ú© گئی تو اس جوان Ù†Û’ کھا :” اللّٰھم انھم استقلونا واستذلونا اللھم فاقتلھم کماقتلونا Ùˆ اذلھم کما استذلونا“ خدا یا !ان لوگوں Ù†Û’ ھماری تعداد Ú©Ù… کردی اور ھمیں ذلیل کرنے Ú©ÛŒ کوشش Ú©ÛŒ خدا یا! توبھی ان لوگوں Ú©Ùˆ اسی طرح قتل کرجیسے انھوں Ù†Û’ ھمیں قتل کیا Ú¾Û’ اور انھیں اسی طرح ذلیل Ùˆ رسوا کر جیسے  انھوں Ù†Û’ ھمیں ذلیل Ùˆ رسوا کر Ù†Û’ Ú©ÛŒ کوشش Ú©ÛŒ Ú¾Û’Ø› پھر اس جنبی Ù†Û’ ایک تیراورچلاکر آپ Ú©Ùˆ شھید کر دیا۔ وہ کھتاھے:جب میں اس جوان Ú©Û’ پاس آیاتووہ مرچکاتھا۔ میں Ù†Û’ اس تیر Ú©Ùˆ حرکت دیا تاکہ اسے باھر نکال دوں لیکن اس کا Ù¾Ú¾Ù„ Ú©Ú†Ú¾ اس طریقے سے پیشانی میں پیوست ھوچکا تھا کہ میں اسے نکالنے سے عاجز ھوگیا۔ اپنے زمانے میں مختار Ù†Û’ عبداللہ بن کامل شاکری Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ سراغ میں روانہ کیا،عبداللہ Ù†Û’ آکراس Ú©Û’ گھر Ú©Ùˆ گھیر لیا اور وھاں لوگوں Ú©ÛŒ ایک بھیڑ Ù„Ú¯ گئی تو وہ شخص تلوار سونتے باھر نکلا۔ ابن کامل Ù†Û’ کھا : اس پر تیر چلاوٴ اور اسے پتھر مارو،لوگوں Ù†Û’ ایسا Ú¾ÛŒ کیا یھاں تک کہ وہ زمین پر گر پڑا لیکن اس Ú©Û’ جسم میں ابھی جان باقی تھی۔اس Ú©Û’ بعد ابن کامل Ù†Û’ آگ منگوائی اوراسے زندہ جلادیا۔( طبری، ج۶،ص Û¶Û´)

[63] آپ کی مادر گرامی کانام رقیہ بنت علی بن ابیطالب علیھم السلام ھے۔( طبری، ج۵،ص۴۶۹،ابوالفرج ،ص۶۲ ،طبع نجف)

[64] ابو مخنف کا بیان ھے۔( طبری، ج۵،ص۴۶۹ ، ابو الفرج ،ص ۶۲، طبع نجف)

[65] مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم ازدی سے یہ روایت نقل کی ھے۔( طبری، ج۵ ،ص۴۴۷)

[66] Û´Û³Ú¾ میں یہ مستوردبن عقبہ Ú©Û’ ھمراہ نکلنے والوں میں شمار ھوتا Ú¾Û’ جو کوفہ میں مغیرہ بن شعبہ Ú©ÛŒ حکومت کا زمانہ تھا۔یہ وھاں کاتب تھا ۔” مستورد “نے Ø­Ú©Ù… دیا کہ یہ اس Ú©Û’ لئے ایک خط Ù„Ú©Ú¾Û’ پھر اس خط Ú©Ùˆ Ù„Û’ کر سماک بن عبید والی مدائن Ú©Û’ پاس Ù„Û’ جائے اور اس Ú©Ùˆ اپنی طرف بلائے تو اس Ù†Û’ ایسا Ú¾ÛŒ کیا۔( طبری ،ج۵ ،ص Û±Û¹Û° )جب مستورد Ú©ÛŒ حکومت مصیبت میں گرفتار ھوئی تو غنوی وھاں سے بھاگ کر کوفہ روانہ ھوگیا اور وھاں شریک بن نملہ Ú©Û’ گھر پھنچا اور اس سے پوچھا کہ مغیرہ سے کھاں ملاقات Ú¾ÙˆÚ¯ÛŒ تاکہ یہ اس سے امان Ù„Û’ سکے( طبری، ج۵ ،ص Û¹Û°) اس Ù†Û’ مغیرہ سے امان طلب Ú©ÛŒ اور مغیرہ Ù†Û’ اسے امان دے دیا۔( طبری، ج۵،ص Û²Û°Û¶) کربلا Ú©Û’ بعد یہ مختار Ú©Û’ خوف  سے بھاگ کر  مصعب بن زبیر سے ملحق Ú¾Ùˆ گیا پھر عبدالرحمن بن محمد بن اشعث Ú©Û’ ھمراہ ھوگیا۔ ( طبری ،ج۵ ØŒ ص Û²Û°Ûµ ) مختار Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ جستجو کرائی تو معلوم ھوا کہ فرار Ú¾Û’ تومختار Ù†Û’ اس کا گھر منھدم کردیا۔ (طبری ،ج۶،ص Û¶Ûµ)

[67] طبری نے جلد ۵، ص ۴۶۸ پر یھی لکھا ھے مگر ص ۴۴۸ پر ابوبکر بن حسین بن علی لکھ دیا ھے جو غلط ھے ۔

[68] عقبہ بن بشیر اسدی کا بیان ھے کہ مجھ سے ابو جعفر محمد بن علی بن حسین علیھم السلام نے بیان کیا ھے۔ ( طبری، ج۵، ص ۴۴۸) ابوالفرج نے مدائنی سے اس نے ابو مخنف سے اس نے سلیمان بن ابی راشد اور عمرو بن شمر سے اس نے جابرسے انھوں نے ابو جعفر امام باقر علیہ السلام سے یہ روایت بیان کی ھے۔( مقاتل الطالبیین، ص ۵۷ ،طبع نجف)

[69] طبری نے ج۶،ص ۶۵ پر یھی لکھا ھے لیکن یھاں ج۵ ،ص ۴۶۸ پر حرملہ بن کاھن لکھا ھے جو غلط ھے۔اس کے سلسلے میں مختار کی جستجو اور کیفیت قتل کو بھی ذکر نھیں کیا ھے ۔ھشام کا بیان ھے کہ مجھ سے ابو ہذیل” سکون “ کے رھنے والے ایک شخص نے بیان کیا ھے کہ وہ کھتا ھے :خالد بن عبداللہ کے زمانے میں حضرمیوں کی نشست میں ،میں نے ھانی بن ثبیت حضرمی کو دیکھا جو بھت بوڑھا ھو چکا تھا۔ میں نے سنا کہ وہ کہہ رھاتھا : میں ان لوگوں میں سے ھوں جو حسین کے قتل کے وقت وھاں موجودتھے۔ خدا کی قسم میں ان دس (۱۰) میںکا ایک تھا جو ھمیشہ گھوڑے پر تھے اور میں پورے لشکر میں گھوم رھا تھا اور ان کے روز گار کو بگاڑ رھاتھا اسی اثنا میں ان خیموں سے ایک نوجوان نکلا جس کے ھاتھ میں ایک لکڑی تھی اس کے جسم پر ایک کرتا اور پاجامہ تھا اور وہ بھت خوفزدہ تھا اور وہ ادھرادھر دیکھ رھا تھا گویا میں دیکھ رھا تھا کہ اس کے کان میں دو درتھے جب وہ ادھر ادھر دیکھ رھاتھا تو وہ در ھل رھے تھے ۔

ناگھاں ایک شخص Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘Û’ Ú©Ùˆ سر پٹ دوڑا تاھوا سامنے آیا یھاں تک کہ اس Ú©Û’ نزدیک ھوگیا پھر جب وہ اپنے Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘Û’ سے مڑا تو اس Ù†Û’ اس نوجوان Ú©Ùˆ تلوار سے دو نیم کردیا۔ ابولفرج مدائنی Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ روایت Ú©ÛŒ Ú¾Û’Û”( ص Û·Û¹ ،طبع نجف) ابو مخنف کا بیان Ú¾Û’ کہ حسن بن حسن اور عمر بن حسن چھوٹے تھے لہٰذا قتل نہ ھوئے۔ (طبری، ج۵ ،ص Û´Û´Û¹) حسین علیہ السلام Ú©Û’ غلاموںمیں سے دو غلام سلیمان اور منجح بھی جام شھادت نوش فرماکر راھی ملک جاوداں ھوگئے Û”(طبری ،ج۵، ص Û´Û¶Û¹) 

[70] طبری نے ج۵، ص۴۶۸ پر یھی لکھاھے اور ابو الفرج نے ص ۵۸ ،طبع نجف پر مدائنی کے حوالے سے یھی لکھا ھے لیکن مشھور یہ ھے کہ یہ بچہ وھی ھے جو خیمہ سے نکل کر اپنے چچا کی شھادت گاہ کی طرف بھاگا تھا اور وھیں پر ان کے پاس شھید کردیا گیا جیسا کہ عنقریب اس کا بیان آئے گا ۔ ارشاد میں مفید ۺ نے اس روایت کو صراحت کے ساتھ لکھا ھے۔( ص ۲۴۱ ،طبع نجف)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38