کربلا میں آغاز جنگ



یہ سن کر عبداللہ Ú©ÛŒ زوجہ ام وھب Ù†Û’ عمود خیمہ اٹھایا اور اپنے شوھر کا رخ کرکے آگے بڑھی اور یہ Ú©Ú¾Û’ جارھی تھی” فداک اٴبی واٴمی“ میرے ماں باپ تم پر قربان Ú¾Ùˆ ں، تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  Ú©ÛŒ پاک Ùˆ پاکیزہ ذریت Ú©ÛŒ طرف سے دفاع میں خوب جنگ کرو ،اس Ú©Û’ بعد عبد اللہ اپنی زوجہ Ú©Ùˆ مخدرات Ú©ÛŒ طرف پلٹا Ù†Û’ Ù„Ú¯Û’ ،تو اس Ù†Û’ عبداللہ Ú©Û’ Ú©Ù¾Ú‘Û’ Ù¾Ú©Ú‘ لئے اورکھینچتے ھوئے بولی : میں جب تک کہ تمھارے ساتھ مرنہ جاوٴں تمھیں نھیں Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ÙˆÚº Ú¯ÛŒ ،یہ صورت حال دیکھ کر امام حسین علیہ السلام Ù†Û’ اسے پکارا اور فرمایا : ”جزیتم من اٴھل بیت خیراً، ارجعي رحمک اللّٰہ الی النساء فاجلسي معھن فانہ لیس علی النساء قتال “ خدا تم لوگوںکو جزائے خیر دے ،اللہ تم پر رحمتوں Ú©ÛŒ بارش کرے، خواتین Ú©ÛŒ طرف پلٹ آوٴ اور انھیں Ú©Û’ ھمراہ بےٹھو کیونکہ خواتین پر جھاد نھیں Ú¾Û’ Û” 

 

الحملة الا ولی (پھلا حملہ )

اس کے بعداموی لشکر کے میمنہ کے سردار عمروبن حجاج نے لشکر حسینی کے داھنے محاذپر حملہ شروع کر دیا ۔جب یہ لشکر امام حسین علیہ السلام کے سپاھیوں کے نزدیک آیا تو وہ سب کے سب اپنے زانو پر بےٹھ کر دفاع میں مشغول ھو گئے اور نیزوں کو ان کی طرف سیدھا کر کے انھیں نشانہ پر لے لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ھوا کہ وہ لشکر نیزوں کے سامنے ٹھھر نہ سکا اور واپس لوٹنے لگا۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر حسینی سپاہ نے ان پر تیر چلانا شروع کیا، جس کے نتیجے میں ان میں سے بعض ھلاک ھوئے تو بعض دےگر زخمی۔[4]

کرامت وھدایت

اسی اثنا Ø¡ میں قبیلہء بنی تمیم کا ایک شخص جسے عبد اللہ بن حوزہ کھا جاتا Ú¾Û’ سامنے آیا اور امام حسین علیہ السلام Ú©Û’ بالمقابل کھڑا Ú¾Ùˆ کر بولا : اے حسین ! اے حسین ! تو امام حسین علیہ السلام Ù†Û’ فرمایا :  ”ماتشاء ؟“ تو کیا چاھتا Ú¾Û’ ØŸ

عبد اللہ بن حوزہ Ù†Û’ کھا : ”اٴبشر بالنار“ تمھیں جھنم Ú©ÛŒ بشارت ھو، امام حسین علیہ السلام Ù†Û’ فرمایا : ” کلا Ù‘ ØŒ اني اٴقدم علی ربّ رحیم وشفیع مطاع، من ھٰذا؟“ نھیں ایسا نھیں Ú¾Û’ØŒ میں اپنے مھربان ورحیم رب Ú©ÛŒ طرف گا مزن ھوں، ÙˆÚ¾ÛŒ شفیع اور قابل اطاعت Ú¾Û’ پھر امام (علیہ السلام)  Ù†Û’ سوال کیا:یہ کون Ú¾Û’ ØŸ

آپ کے اصحاب نے جواب دیا : یہ ابن حوزہ ھے۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :” ربّ حزہ الی النار ! “خدا یا! اسے جھنم کی آگ میں ڈال دے ۔

امام علیہ السلام کی بد دعا کا اثر یہ ھو اکہ ناگا ہ اس کا گھوڑا ایک گڑھے کے پاس بدکا اور وہ گڑھے میں جا گر الیکن اس کا پیر رکاب میں پھنسا رہ گیا اور اس کا سر زمین پر آگیا۔اسی حالت میں گھوڑے نے دوڑنا شروع کیا اور وہ جدھر سے گزرتا تھا زمین کے ھر پتھر اور درخت سے اس کا سر ٹکراتا تھا۔یہ سلسلہ جاری رھا یھاں تک کہ وہ مر گیا ۔[5]

 Ø§Ø³ سلسلے میں مسروق بن وائل کا بیان Ú¾Û’ : میں اس لشکر Ú©Û’ آگے آگے تھا جو حملہ Ú©Û’ لئے حسین (علیہ السلام)  Ú©ÛŒ طرف آگے بڑھا تھا۔ میں Ù†Û’ اپنے دل میں سوچا کہ میں لشکر Ú©Û’ بالکل آگے رھوں گا تا کہ جب حسین (علیہ السلام)  قتل کر دےئے جا ئیں تو ان کا سر میرے ھاتھ Ù„Ú¯Û’ اور وہ سر میں عبید اللہ بن زیاد Ú©ÛŒ خدمت میںلے جا کر کسی خاص مقام Ùˆ منزلت پر فائز Ú¾Ùˆ جاوٴں۔ جب Ú¾Ù… لوگ حسین (علیہ السلام)  تک Ù¾Ú¾Ù†Ú†Û’ تو ھما ری فوج کا ایک شخص جسے ابن حوزہ کھتے ھیں وہ سامنے آیا اور بولا : کیا حسین (علیہ السلام)  تمھا رے درمیان موجود ھیں ØŸ تو حسین( علیہ السلام) خاموش رھے Û” اس Ù†Û’ اپنی بات Ú©Ùˆ دھرایا یھاں تک جب تیسری بار اس Ù†Û’ تکرار Ú©ÛŒ تو حسین (علیہ السلام ) Ù†Û’ فرمایا : ”قولوا لہ : نعم ھٰذا الحسین فما حاجتک “ اس سے Ú©Ú¾Ùˆ : ھاں یہ حسین (علیہ السلام)  ھیں ØŒ تم کیا چاھتے ھو؟

ابن حوزہ Ù†Û’ کھا : اے حسین (علیہ السلام)  !تم Ú©Ùˆ جھنم Ú©ÛŒ بشارت Ú¾Ùˆ!



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 next