اصالتِ روح

استاد شہید مرتضیٰ مطہری


جاندار، تغذیہ كی خاصیت ركھتا ہے، وہ خود كار (خودكفیل) اور داخلی عوامل كے زیر اثر بیرونی مواد كو اپنے لئے جذب كرتا ہے، اور اسے خاص انداز میں تجزیہ و تركیب كے ذریعے اپنی بقا اور دوام زندگی كے كام میں لاتا ہے، لیكن یہ خاصیت بے جان چیزوں میں نہیں ہے ۔ جاندار موجود اور زندہ عناصر جہاں بھی ہوں، رفتہ رفتہ ترقی كرتے اور نئی شكل و صورت اختیار كرنے كے ساتھ ساتھ كمال پذیر بھی ہوتے ہیں اور ہر لمحہ اپنی طاقت میں اضافہ كرتے رہتے ہیں، یہاں تك كہ جب اپنی نسل باقی ركھنے كے لائق ہوجاتے ہیں تو خود ختم ہوكر اپنے نتائج كے ذریعے اپنے وجود قائم ركھتے ہیں ۔

حیات و زندگی جہاں كہیں دكھائی دیتی ہے، وہاں كے ماحول (اور فضا) پر غلبہ حاصل كرلیتی ہے اور كائنات كے بے جان عناصر كو تركیب بدل كر نئی تركیب و حالت كے ساتھ پیش كرتی ہے ۔ حیات، مصور… منصوبہ ساز اور كلاكار ہے اور اس میں ترقی و تكامل كی خاصیت موجود ہے… حیات، مقصد اور صلاحیتِ انتخاب ركھتی ہے، وہ اپنی منزل و راہ كو جانتی ہے، جس راہ كو لاكھوں سال پہلے انتخاب كیا جاچكا ہے ۔ وہ آہستہ آہستہ مقصد و منزل كی طرف بڑھتی رہتی اور جس حد سے آگے اسے كمال نہیں ملتا وہاں سے آگے نہیں بڑھتی ۔

یہ تمام خواص، بے جان میں نہیں، صرف جاندار موجودات میں ہوتے ہیں ۔ كرسی موریسن كے بقول: " مادہ بذات خود ذكاوت عمل (ابتكار) سے عاری اور صرف حیات ہے جوہر لمحہ خوبصورت اور نئے مناظر پیش كرتی ہے ۔"

اس نكتہ سے ہم مكمل طور سے درك كرتے (سمجھتے) ہیں كہ حیات و زندگی بذات خود ایك خاص طاقت اور جداگانہ كمال و فعلیت ہے جو مادے میں پیدا ہوكر اپنی فعالیت كے علاوہ دوسری مختلف كے سرگرمیوں اور فعالیتوں كا اظہار كرتی ہے ۔

ہم پہلے كہہ چكے ہیں كہ "زیست شناسی " (حیاتیات) كے موضوع پر دانشوران مغرب كی طرف سے اس قدر عمدہ تحقیقات سامنے آچكے ہیں جو موضوع روح و بدن كے لئے بڑی اچھی زمین ہموار كرتے ہیں ہر چند خود ان دانشوروں كی مراد یہ تحقیق نہ تھی ۔

حقیقت یہ ہے كہ حیات و زندگی اور جاندار موجودات كے خواص كے بارے میں وہ زبردست تحقیقات عمل میں آئیں جو حیاتی طاقت كی اصالت كو مكمل طور سے واضح كرتی ہیں ۔ زیادہ تر دانشوروں نے اس حقیقت كو درك كركے اپنی تحقیقات میں حیاتی طاقت كی اصالت كی طرف اشارہ بھیكیا ہے، انہوں نے سنجیدگی سے اس بات كا اعتراف كیا ہے كہ حیاتی طاقت وہ قوت ہے جو طبیعت كے سلسلے میں مادّے پر خارج سے آتی ہے اور آثار زندگی محض مادے ك تركیب، جمع اور تفریق سے نہیں بلكہ اسی قوت كے معلول ہیں ۔ اجزاء مادہ كی تركیب، جمع و تفریق اور تالیف حیاتی آثار كی پیدائش كے لئے شرطِ كافی نہیں بلكہ شرط لازم ہے اور جو لوگ حیاتیات كے مشہور عالم و دانشور، لامارك كی طرح حیاتی قوت كی اصالت كے منكر ہیں اور رسمی طور پر یہ اظہار كرتے ہیں كہ جاندار كی طبیعت كا مكانیكی قوانین كی رو سے مطالعہ كرنا چاہیے ۔ جب ان كے نظریہ كو گہری نظر سے دیكھتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے كہ حیاتی قوت كی اصالت كے بارے میں انكار اس لئے ہے كہ یہ لوگ حیاتی قوت كی اصالت كو دوئی اور جدائی كے برابر اور حیاتی قوت كے وجود كو مادہ اور اس كے آثار سے جدا اور منفصل مانتے ہیں ۔ انہوں نے یوں سوچا كہ اگر حیاتی قوت، اصالت ركھتی ہے تو اسے ماحول سے وابستہ ہونے كے بجائے ہر فضا اور ہر حالت میں یكساں رہنا چاہیے، ماحول كے عوامل سے متاٴ ثر نہیں ہونا چاہیے ۔ جسم كی فزیكی اور كیمیاوی تحریك و عمل سے تعلق و وابستگی نہ ركھنا چاہیے، حالانكہ علمی مشاہدات ان سب كے برخلاف بات ثابت كرتے ہیں ۔

لامارك كہتا ہے:

"زندگی فیزیكی كیفیت كے علاوہ كچھ نہیں، زندگی كی تمام كیفیتیں فیزیكی یا كیمیاوی علل پر موقوف ہیں اور ان كا "مركز نمو" (منشا) جاندار كی مادّی تعمیر كے اندر ہے ۔"

شاید لارمك نے سوچا كہ اگر حیاتی قوت اصالت ركھتی ہے تو فیزیكی اور كیمیاوی علل سے اس كا تعلق اور اس كے (مركز نمو) منشا كو جاندار كے مادّے میں نہ ہونا چاہیے ۔

اس سے پہلے بیان ہوچكا ہے كہ دیكارت كا نظریہٴ دوئی اور نظریہٴ افلاطون كی طرف اس كی الٹی دوڑ بہت مشكل سے تمام ہوئی كیونكہ اس نے دانشوروں كو اس طرف اكسایا كہ وہ حیاتی طاقت كی اصالت كے بارے میں ہی سوچتےرہیں اور حیات و بدن كے جوہری اور ذاتی رابطہ كو نگاہوں سے دور ركھیں اور دو مخالف قطبوں كو مركز فكر بنائیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 next