دنیا کی حقیقت حضرت علی(علیه السلام)کی زبانی



یہ دنیا دھو کہ باز ہے اور اس کے اندر جو کچھ ہے سب دھو کہ ہے ۔یہ فانی ہے اور اس میں جو کچھ ہے سب فنا ہونے والاہے ۔اس کے کسی زادراہ میں کوئی خیر نہیں ہے سوائے تقویٰ کے ۔ اس میں سے جوکم حاصل کرتا ہے اسی کو راحت زیادہ نصیب ہوتی ہے اور جو زیادہ کے چکّر میں پڑجاتا ہے اس کے مہلکات بھی زیادہ ہوجاتے ہیں اور یہ بہت جلد اس سے الگ ہوجاتی ہے ۔کتنے اس پراعتبار کرنے والے ہیں جنہیں اچانک مصیبتوں میں ڈال دیا گیا اور کتنے اس پر اطمینان کرنے والے ہیں جنہیں ہلاک کردیا گیا اور کتنے صاحبان حیثیت تھے جنہیں ذلیل بنا دیاگیا اور کتنے اکڑنے والے تھے جنہیں حقارت کے ساتھ پلٹا دیاگیا ۔اس کی بادشاہی پلٹا کھانے والی۔ اس کا عیش مکدّر ۔اس کا شیریں شور ۔اس کا میٹھا کڑوا ۔اس کی غذاز ہر آلود اور اس کے اسباب سب بوسیدہ ہیں ۔اس کازندہ معرض ہلاکت میں ہے اور اس کا صحت مندبیمار یوں کی زدپر ہے ۔اس کا ملک چھننے والا ہے اور اس کا صاحب عزت مغلوب ہونے والا ہے ۔

اس کا مالدار بدبختیوں کا شکار ہونے والا ہے اور اس کا ہمسا یہ لُٹنے والا ہے ۔کیا تم انھیں کے گھر وں میں نہیں ہو جوتم سے پہلے طویل عمر ،پائید ارآثار اور دوررس امیدوں والے تھے ۔بے پناہ سامان مہیا کیا ،بڑے بڑے لشکر تیار کئے اور جی بھر کر دنیا کی پر ستش کی اور اسے ہر چیز پر مقدم رکھا لیکن اس کے بعد یوں روانہ ہو گئے کہ نہ منزل تک پہونچا نے والا زادراہ ساتھ تھا اور نہ راستہ طے کرانے والی سواری ۔کیا تم تک کوئی خبر پہو نچی ہے کہ اس دنیا نے ان کو بچانے کے لئے کوئی فدیہ پیش کیا ہو یا ان کی کوئی مدد کی ہو یا ان کے ساتھ اچھا وقت گزاراہو ۔؟ بلکہ اُس نے تو ان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے ،آفتوں سے اُنھیں عاجز ودر ماندہ کردیا اور لَوٹ لَو ٹ کرآنے والی زحمتوں سے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ناک کے بل اُنھیں خاک پر پچھاڑ دیا اور اپنے گھروں سے کچُل ڈالا ،اور ان کے خلاف زمانہ کے حوادث کا ہاتھ بٹا یا ۔

تم نے تو دیکھا ہے کہ جو ذرا دُنیا کی طرف جھکا اور اسے اختیار کیا اور اس سے لپٹا ،تو اس نے (اپنے تیّور بدل کر ان سے کیسی )ا جنبیّت اختیار کرلی ۔ یہاں تک کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس سے جُدا ہوکر چل دئیے ،اور اس نے انھیں بھُوک کے سوا کچھ زادِراہ نہ دیا ،اور ایک تنگ جگہ کے سوا کوئی ٹھہر نے کا سامان نہ کیا ،اور سواگھُپ اندھیرے کے کوئی روشنی نہ دی اور ندامت کے سوا کوئی نتیجہ نہ دیا ،تو کیا تم اسی دنیا کو ترجیح دیتے ہو،یا اسی پر مطمئن ہو گئے ہو یا اسی پر مرے جا رہے ہو ؟جو دنیا پر بے اعتماد نہ رہے اور اس میں بے خوف و خطر ہو کر رہے اس کے لئے یہ بہت برا گھر ہے ۔جان لو اور حقیقت میں تم جانتے ہی ہو ،کہ (ایک نہ ایک دِن)تمھیں دنیا کو چھوڑنا ہے ،اور یہاں سے کوچ کرنا ہے ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جو کہا کرتے تھے کہ ''ہم سے زیادہ قوت و طاقت میں کون ہے ۔'' انھیں لاد کر قبروں تک پہونچایا گیا مگر اس طرح نہیں کہ انھیں سوار سمجھا جائے انھیں قبروں میں اتار دیا گیا ،مگر وہ مہمان نہیں کہلاتے پتھروں سے اُن کی قبریں چن دی گئیں ،اور خاک کے کفن ان پر ڈال دئے گئے اور گلی سڑی ہڈیوں کو ان کا ہمسایہ بنا دیا گیا ہے ۔

وہ ایسے ہمسایہ ہیں جو پکارنے والے کو جواب نہیں دیتے ہیں اور نہ زیادتیوں کو روک سکتے ہیں اور نہ رونے دھونے والوں کی پروا کرتے ہیں ۔اگر بادل (جھوم کر)ان پر برسیں ،تو خوش نہیں ہوتے اور قحط آئے تو ان پر مایوسی نہیں چھا جاتی ۔وہ ایک جگہ ہیں ،مگر الگ الگ ،وہ آپس میں ہمسایہ ہیں مگر دور دور ،پاس پاس ہیں مگر میل ملاقات نہیں،قریب قریب ہیں مگر ایک دوسرے کے پاس نہیں پھٹکتے، وہ بردبار بنے ہوئے بے خبر پڑے ہیں ،ان کے بغض و عناد ختم ہو گئے اور کینے مٹ گئے ۔نہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ ہے ،نہ کسی تکلیف کے دور کرنے کی توقع ہے انھوں نے زمین کے اوپر کا حصہ اندر کے حصہ سے اور کشادگی اور وسعت تنگی سے ،اور گھر بار پردیس سے اور روشنی اندھیرے سے بدل لی ہے اور جس طرح ننگے پیر اور ننگے بدن پیدا ہوئے تھے ، ویسے ہی زمین میں (پیوند خاک )ہوگئے اور اس دنیا سے صرف عمل لے کر ہمیشہ کی زندگی اور سدا رہنے والے گھر کی طرف کوچ کر گئے ۔جیسا کہ خداوندقدوس نے فرمایاہے :

(کما بدأنا أول خلق نعیدہ وعداًعلینا انّا کنا فاعلین) (۱۴)

''جس طرح نے ہم نے مخلوقات کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اسی طرح دو بارہ پیدا کریں گے ۔ اس وعدہ کا پورا کرنا ہمارے ذمہ ہے اور ہم اسے ضرور پورا کرکے رہیں گے ''

آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:

'' واُحذّرکم الدنیا فانھا منزل قُلعۃ ، ولیست بدارنُجعۃ ، قد تزیّنت بغرورھا، وغرّت بزینتھا، دارھانت علیٰ ربھا، فخلط حلالھا بحرامھا، وخیرھا بشرھا، و حیاتھا بموتھا، و حلوھا بمرّھا، لم یصفّھا اﷲ تعالیٰ لاولیائہ، ولم یَضنّ بھا علیٰ أعدائہ۔۔۔ '' (۱۵)

''میں تمہیں اس دنیا سے ہو شیار کر رہا ہوں کہ یہ کوچ کی جگہ ہے ۔آب ودانہ کی منزل نہیں ہے ۔یہ اپنے دھوکے ہی سے آراستہ ہوگئی ہے اور اپنی آرائش ہی سے دھو کا دیتی ہے ۔اس کا گھر پروردگار کی نگاہ میں با لکل بے ارزش ہے اسی لئے اس نے اس کے حلال کے ساتھ حرام ۔خیر کے ساتھ شر، زندگی کے ساتھ موت اور شیریں کے ساتھ تلخ کو رکھ دیاہے اور نہ اسے اپنے اولیاء کے لئے مخصوص کیا ہے اور نہ اپنے دشمنوں کو اس سے محروم رکھا ہے ۔اس کا خیر بہت کم ہے اور اس کا شر ہر وقت حاضر ہے ۔اس کا جمع کیا ہو ا ختم ہوجانے والا ہے اور اس کا ملک چھن جانے والا ہے اور اس کے آباد کو ایک دن خراب ہوجانا ہے ۔بھلا اُس گھر میں کیا خوبی ہے جوکمز ور عمارت کی طرح گرجائے اور اس عمر میں کیابھلائی ہے جو زادراہ کی طرح ختم ہوجائے اور اس زندگی میں کیا حسن ہے جو چلتے پھرتے تمام ہوجائے ۔

دیکھو اپنے مطلوبہ امور میں فرائض الٰہیہ کو بھی شامل کرلو اور اسی سے اس کے حق کے ادا کرنے کی توفیق کا مطالبہ کرواپنے کانوں کو موت کی آواز سنادوقبل اس کے کہ تمہیں بلالیا جائے



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 next