دنیا کی حقیقت حضرت علی(علیه السلام)کی زبانی



''میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ یہ ایسی شیرین وسرسبز ہے جوشہوتوں سے گھری ہوئی ہے ''

دنیاوی زندگی کے ظاہر اور باطن کا موازنہ

قرآن کریم میں دنیاوی زندگی کے دونوں رخ (ظاہر وباطن )کا بہت ہی حسین موازنہ پیش کیا گیا ہے نمونہ کے طورپر چند آیات ملاحظہ فرمائیں :

۱۔ ( انّما مثل الحیاۃ الدنیا کماءٍ أنزلناہ من السماء فاختلط بہ نبات الارض مما یأکل الناس والانعام حتیٰ اذا أخذت الارض زُخرفھا وازّیّنت وظنّ أھلھا أنّھم قادرون علیھا أتاھا أمرنا لیلاً أونھاراً فجعلناھا حصیداً کأن لم تغن بالامس کذٰلک نفصّل الآیات لقومٍ یتفکّرون) (۲۲)

''زندگانی دنیا کی مثال صرف اس بارش کی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا پھر اس سے مل کر زمین سے نباتات برآمد ہوئیں جن کو انسان اور جانور کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے سبز ہ زارسے اپنے کو آراستہ کرلیا اور مالکوں نے خیال کرنا شروع کردیا کہ اب ہم اس زمین کے صاحب اختیار ہیں تو اچانک ہمارا حکم رات یا دن کے وقت آگیا اور ہم نے اسے بالکل کٹا ہواکھیت بناد یا گویا اس میں کل کچھ تھا ہی نہیں ہم اس طرح اپنی آیتوں کو مفصل طریقہ سے بیان کرتے ہیں اس قوم کے لئے جو صاحب فکر ونظر ہے ''

اس آیۂ کریمہ میں زندگانی دنیا ،اس کی زینت اور آرائشوں اور اس کی تباہی و بربادی اور اس میں اچانک رو نما ہو نے والی تبدیلیوں کی عکاسی مو جود ہے ۔

چنانچہ دنیا کو اس بارش کے پانی سے تشبیہ دی گئی ہے جو آسمان سے زمین پر برستا ہے اور اس سے زمین کے نباتات ملتے ہیں تو ان نباتات میں نمو پیدا ہوتا ہے اور وہ انسانوں اور حیوانوں کی غذانیززمین کی زینت بنتے ہیں ۔یہاں تک کہ جب زمین اپنی آرائشوں اور زینتوں سے آراستہ ہوجاتی ہے ۔۔۔تو اچانک یہ حکم الٰہی کسی بجلی، آندھی(ہوا)وغیرہ کی شکل میں اس کی طرف نازل ہوجاتا ہے اور اسے بالکل ویرانے اور خرابے میں تبدیل کردیتا ہے جیسے کل تک وہ آباد ،سرسبز و شاداب ہی نہ تھی یہ دنیا کے ظاہری اور باطنی دونوں چہروںکی بہترین عکاسی ہے کہ وہ اگر چہ سر سبزو شاداب ، پُرفریب ، برانگیختہ کرنے والی،پرکشش (جالب نظر)دلوں کے اندر خواہشات کو بھڑکانے والی ہے لیکن جب دل اس کی طرف سے مطمئن ہو جاتے ہیں تواچانک حکم الٰہی نازل ہوجاتا ہے اور اسے کھنڈر اور بنجر بناڈالتا ہے جس سے لوگوں کو کراہیت محسوس ہو تی ہے ۔

اس سورہ کا پہلا حصہ دنیا کے ظاہری چہرہ کی وضاحت کر رہا ہے جو انسان کو دھوکہ اور فریب میں مبتلا کردیتا ہے جبکہ دوسرا حصہ وعظ و نصیحت اور عبرت حاصل کرنے کا سرچشمہ ہے ۔جو کہ دنیا کا باطنی رخ ہے ۔

۲۔: '' انّا جعلنا ما علیٰ الارض زینۃً لھا لنبلوھم أیّھم أحسن عملاً '' (۲۳)

''بیشک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زینت قرار دیدیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے ''



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 next