حکومت مہدي عج اور اسلامي تہذيب کا عروج



لوگوں کا قرآني تعليمات، نماز جماعت اور نماز جمعہ ميں شريک ہونا قابل ديد ہو گا، نيز موجودہ مساجد يا جو بعد ميں بنائي جائيں گي، لوگوں کي ضرورتيں برطرف نہيں کر پائيں گي? جو روايت ہے وہ يہ کہ ايک مسجد ميں بارہ 12 دفعہ نماز جماعت ہو گي? يہ خود ہي مظاہر اسلامي کے حد درجہ قبول کرنے کي واضح و آشکار دليل ہے.

ان حالات ميں ديني اور مذہبي ذمہ داري کے حامل اداروں کا بہت بڑا کردار ہے اور آبادي کے لحاظ سے مسجديں بنائي جائيں گي? روايات ميں ہے کہ اُس زمانے ميں سب سے چھوٹي مسجد آج کي مسجد کوفہ جتني ہو گي جبکہ يہ مسجد آج دنيا کي سب سے بڑي مسجد ہے

يہاں پر ہم روايت کي روشني ميں امام مہدي عج کے دوران حکومت ميں قرآن کي تعليم، معارف ديني، مساجد، روحاني ترقي اور کريمانہ اخلاق پر روشني ڈاليں گے.

1: قرآن اور ديني معارف کي تعليم:

امير المومنين علي عليہ السلام فرماتے ہيں: "گويا ہم اپنے شيعوں کو مسجد کوفہ ميں اکٹھا ديکھ رہے ہيں کہ وہ (چادريں بچھا کر) چادروں پر لوگوں کو قرآن کي تنزيل کے اعتبار سے تعليم دے رہے ہيں"(1)

امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں: "گويا ميں علي کے شيعوں کو ديکھ رہا ہوں کہ قرآن ہاتھ ميں لئے لوگوں کو تعليم دے رہے ہيں"(2)

اصبغ بن نباتہ روايت کرتے ہيں: ميں نے حضرت علي عليہ السلام کو کہتے ہوئے سنا: "گويا غير عرب (عجم) کو ديکھ رہا ہوں کہ مسجد کوفہ ميں اپني چادريں بچھائے تنزيل کے اعتبار سے لوگوں کو تعليم دے رہے ہيں"(3)

يہ روايت تعليم دينے والوں کا نقشہ کھينچ رہي ہے کہ وہ سب عجم (غير عرب) ہوں گے? لغت دان حضرات کے مطابق يہاں عجم سے مراد اہل فارس و ايراني ہيں?



back 1 2 3 4 5 6 7 next