دینی نظام میں قوانین کامقام



اب تک جو کچھ بیان ھو ااس حکومت کے کلیات تھے کہ جس کے دو حصہ تھے قانون گذاری اور قوانین کا نفاز، اور جیسا کہ عدالت کا محکمہ در حقیقت اجرائی محکمہ کا ایک جزھے ، انشائا،،،ھم اس کی اھمیت کی خاطر الگ سے بحث کریں گے.

 

2.طبعی اور بنائے گئے قوانین کی اھیمت

یہ بات بیان جاچکی ھے کہ ھماری بحث کے اصول اورمسلمات میںسے ایک اصل یہ ھے کہ معاشرہ کیلئے قانون کاھونا ضروری ھے،اور دوسری اصل یہ ھے کہ ھماری نظر میں ایسا قانون معتبر ھے جس کا بنانے والا بلاواسطہ یابالواسطہ خداھو،اس نظریہ کے مقابلہ میں ایسے بھی لوگ ھیں جنھوں نے یہ کھا ھے کہ معاشرہ قانون کا نیازمند نھیں ھے خواہ وہ قانون خدا بنائے، خواہ دوسرے افراد، البتہ اس موجودہ دور میں اس نظریہ کے طرفدار موجود نھیں ھیں،کیو نکہ جن حالات میں ھم زندگی بسر کرھے ھیں سب قانون کی ضرورت کا احساس کرتے ھیں اور کوئی بھی ایسا نھیں ھے جومعاشرہ کے لئے قانون کی ضرورت کامنکر ھو،اس دور میں یھاں تک کہ ایک مختصر سے دیھات کے رھنے والے بھی اس ضرورت کو محسوس کرتے ھیں کہ ایسے قوانین اور دستورات ھونے چاھئیں کہ جنکی وہ پیروی کریں.

لیکن گذشتہ زمانے میں زندگی بسرکرنے کا طر یقہ بھت سا دہ تھا کچھ لوگ اس بات کے قائل تھے کہ ھمیں قوانین بنانے کی ضرورت کوئی ضرورت نھیںھے ،ان کی نگاہ میں عقل خود بخودفطری قوانین کو پھچان کرایک طرح کے فطری قوانین سے ٓاگاہ ھوجاتی ھے اور پھر اسے اس کی ضرورت نھیںرھتی کہ کوئی قانون بنائے گویا قدیم زمانہ میںفطری حقوق اور فطری قوانین کانظریہ انسانی معاشرہ میں اس شکل میںبیان ھواکہ جب لوگ یہ کھا کرتے تھے کہ کس قانون پر عمل کریں ؟ تو جواب دیا جاتا تھا کہ اپنے اندر نگاہ کر و یا اس دنیا پر نظر ڈالو تاکہ تمھیں پتہ چلے کہ کون سا حکم اور قانون وھاںپر حکم فرما ھے وھی قانون اپنے معاشرے میں نافذھو گا .

جیساکہ آپ نے ملاحظہ فرمایایھاں تک کہ فطری قانون کے نظریہ کی بناپر بھی قانون کی ضرورت ایک مسلم بات ھے اور یقینی طور پر اس طولانی تاریخ میں ایسے مفکرین کا وجود نھیں ملتا جو یہ دعوی ٰکریں کہ انسان کسی طرح کے قانون کا یھاں تک کہ قانون فطری کا بھی محتاج نھیں ھے اور اس سلسلے فلسفی حضرات کے یھاں جو بھی بحث پائی جاتی ھیں وہ اس بنا پر رھی ھیں کہ کیا قوانین عقلی ، فطری اور قوانین الھٰی سے مراد وھی قوانین ھیں جن کو تمام انسان اپنی عقل سے درک کرتے ھیں اور وھی معاشرے کے لئے کافی ھیں یا خاص طور پرجو قوانین بنائے گئے ھیں اس کے بھی ھم محتاج ھیں،اور جیسا کہ ھم یہ بیان کرچکے ھیں کہ اگر گذشتہ زمانہ میںفطری قوانین یا عقلی قوانین یا مستقلات عقلیہ اپنی مختلف تفسیروں اور تعبیروں کے ساتھ کہ جن کے بیان کرنے کا یہ موقع نھیں ھے معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کافی ھیں ،تو بغیر کسی شک وتردیدکے ،ھمارے زمانے کے حالات کے پیش نظریہ فریضہ قابل قبول نھیں ھے ،یھاں تک کہ بیان وتوضیح کے لائق بھی نھیں ھے.

آج ھر فرد اپنے گردو پیش مشاھدہ کرنے سے یہ سمجہ جاتا ھے کہ ھر روز اپنے دقیق اندرونی، بیرونی اور بین الاقوامی روابط میں سیکڑوں اجتماعی اور بین الاقوامی قوانین کا نیازمند ھے انھیں میں سے ایک معاشرھی اور اندرونی ملک کے قوانین اور دستورات میں ٹریفک اور ٹریفک سے متعلق قوانین ھیں .

یہ حقیقت ھے کہ اگر اس زمانے میں قانون نہ ھوں تو ھر شھر اور علاقہ کے ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کا نظام کیا ھوگا ؟ اگر گاڑیوں کی رفتار ، اور انکے چلنے کی سمت(دائیں سمت چلیں یا بائیں سمت )یا ٹریفک کے دوسرے قوانین نہ بنائے جائیں تو کتنے حادثات رونما ھوں گے؟ دنیا کے کس علاقہ میں ایسا گروہ مل سکتا ھے جو بغیرقانون کے ایک ساتھ ایک جگہ پر زندگی گزارتے ھوں ،اور ان کے درمیان خطرات اور حادثات رونمانہ ھوتے ھوں ،یہ بات صحیح ھے کہ تمام ممالک میں ٹریفک کا قانون ایک جیسا نھیں ھواکرتا ھے مثال کے طور پر کچھ ممالک جیسے انگلینڈ،جاپان وغیرہ میں گاڑیاں بائیں سمت سے چلتی ھیں اور کچھ ممالک میں (جن میں سے ایک ایران بھی ھے)گاڑیاں دائیں سمت چلتی ھیں ، بھر حال قانون بنایا جاتا ھے ،اور انسان اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ رھتا ھے وہ یہ جانتا ھے کہ کس سمت حرکت کرناچائیے،مذکور ہ مثال معاشرہ میں قانون کی ضرورت کا ایک نمونہ ھے، اور بے شک یہ ضرورت دوسرے مسائل از جملہ خاندانی اور بین الاقوامی حقوق میں بھی پڑتی ھے اور اس کا احساس ھو تاھے.

بین الاقوامی قانون بنانے کی ضرورت کا ایک نمونہ د ریائے خزر سے متعلق مسائل ھیں جواب بھی اس کے حاشیہ نشین ممالک کے درمیان اس سے بھرہ مندھونے کے طریقہ میںاختلاف نظر آتا ھے ،فطری طور پر یہ قبول نھیں کیا جا سکتا کہ ھر شخص جس طرح سے چاھے دریا کے نیچے موجود تیل اور منابع اور دوسری ذخائر سے فائدہ اٹھائے اور تیل ،گیس اور دوسری چیزوں کے نکالنے میں کوئی قانون نہ ھو ،بلکہ ایسے قوانین بنائے جانے چاھئےں جو یہ معین کرےں کہ فلاں ملک کس حد تک دریاء کی گھرائی، موجود ہ ذخائر سے فائدہ اٹھا سکتا ھے ، جو مشکلات اس وقت پڑوسی ممالک کے لئے کھڑی ھیں وہ اس وجہ ھے سے ھیں کہ کوئی معین قانون موجود نھیں ھے ،اور سب دریا کے ذخائر کے بارے میں ایک عادلانہ تقسیم کے لئے قوانین اور دستورات کی ضرورت کا احساس کرتے میں لھٰذابشر کی ضرورت کے پیش نظر قوانین و دستورات کی ضرورت پڑ تی ھے،اور جیسا کہ کمیٹیاں اور موافقت نامہ اور دریا اور ساحل سے متعلق قوانین ( فضاء،کنویں وغیرہ )چند صدی قبل موجود نھیں تھے ،کیونکہ بشر کو اس کی ضرورت نھیں تھی ، پھر افراد ،گروھوں ،قوموں اور ملکوں کے درمیان ٹکراوٴ اور اختلاف کی وجہ سے اس طرح کے قوانین کی ضرورت محسوس ھوئی.

اس بات کو پیش ِنظر رکھتے ھوئے کہ قانون ھر شخص اور معاشرہ کے دائرئہ حقوق کو معین کرتاھے ،قرآن مجید اس اصول کی طرف کہ معاشرھی زندگی قانون کی محتاج ھے خاص توجہ دلائی ھے ،البتہ شایانِ ذکر ھے کہ قانون کا وجود عام طور پرسماجی زندگی سے مخصوص ھے بلکہ اگر ایک فرد بھی زندگی گذارنا چاھتا ھے تو وہ کمال تک پھونچنے میں قانون کا محتاج ھے، البتہ فردی زندگی کے لئے اخلاقی قوانین ،کا فی ھو تے ھیں لیکن جس وقت اجتماعی مسائل میںلوگوں کے حقوق میں ٹکراؤپیداھوجاتاھے تو نتیجہ میں اختلافات وجود میں آتے ھیں اورکبھی کبھی دیکھنے میں آتاھے کہ اگر کسی نے حد سے زیادہ نھر کے پانی سے فائدہ اٹھالیاتو آپس میں لڑائی جھگڑے ھوجاتے ھیں ا ور ایسی صورت میں اجتماعی قوانین بنانے کی ضرورت واضح ھوجاتی ھے.



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next