ادیان الٰہی میں قربانی کا تصور اور شخصیت امام حسین



وفدیناہ بذبحٍ عظیم (سورۂ صافات :١٠٧)

اور ہم نے اس کا بدلہ ایک عظیم قربانی کو قرار دیا ہے ۔

چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ۔ عقل اور فکر سے نوازا اسی لئے اس کو اپنی معرفت کی اور عبادت کی ذمہ داری دی اور جبکہ انسان اشرف المخلوقات قرار پایا تو وہ اگر ناحق قتل کر دیا جائے تو اس ایک انسان کے عوض میں اگر ورثاء راضی ہوں تو سو اونٹ دیت میں دئے جاتے ہیں جس طرح عبداللہ کا والد بزرگوار حضرت پیغمبر اسلام ۖ کی قربانی میں سو (١٠٠)

اونٹ فدیہ دئے گئے ۔ قربانی کی رسم قدیم سے ہے ۔ انبیاء کرام اور اوصیاء سب خدا کی راہ میں قربانی دیتے رہے ابتدائے زمانہ میں آدم کے بیٹے ہابیل اور قابیل نے قربانی دی تھی ۔

 

ذبح عظیم سے مراد:

بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ وہی دنبہ جسے حضرت قابیل علیہ السلام نے قربانی میں دیا تھا اور بارگاہ خداوندی میں قبول ہوا۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیئے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو ذبح کے واسطے لٹا یا تو بہشت سے اللہ تعا لیٰ نے فدیہ بیجھاتھا جس کی خبر قرآن میں دی ہے '' وفدیناہ بذبحٍ عظیم'' ۔ ہم نے حضرت اسماعیل کے عوض میں ایک بہت بڑی قربانی دی ہے۔

ان دونوں بزرگواروں کی نسبت اسلامی تاریخ کا یہ واقعہ بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام من جانب اللہ مأمور ہوئے کہ اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کواپنے ہاتھوں سے ذبح کریں اور آپ نے بڑی ثابت قدمی اور پر جگری کے ساتھ حکم ربانی کی تکمیل کو عمل کے آخری درجہ تک پہنچا دیا ۔ اگرچہ وقت پر پروردگار عالم کی طرف سے بجائے انسان کے قر بانی کے عمل میں آنے کا انتظام ہو گیا مگر اس اعلان کے ساتھ کے آئندہ اس کا معاوضہ راہ خدا میں ایک بڑی قربانی کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔اس واقعہ کو اسلام نے بڑی اہمیت دی اور قربانی کی شکل میں اس کی مستقل یادگار قائم کر دی ۔ تفسیر اہلبیت میں وارد ہے کہ ذبح عظیم سے مراد حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں کہ وہ کربلا کے سرزمین پر ذبح کئے گئے اور انہی کو خداواند کریم نے ذبح عظیم کہا گیا ہے اسی لیئے علاّمہ اقبال نے'' وفدیناہ بذبحٍ عظیم'' کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

 



back 1 2 3 4 5 6 7 next