ادیان الٰہی میں قربانی کا تصور اور شخصیت امام حسین



سرخرو ، عشق غیو ر از خون او

شوخیٔ این مصرع از مضمون ا و

کہ حسین علیہ السلام (نمائندہ ٔحق) برای حرمت حق سر دھڑ کی بازی لگا دی کہ حق کا بول بالا اور باطل کا منہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے کالا کر گیا ۔

قسم ذات احدیت کی عشق غیور کی آبرو کا محافظ وہی ہے ۔

 

( سر دے کے جس نے اسلام بچالی )

 

اور آج اسلام اہل عالم کی نظروں میں معزز و مؤقر اسی لیئے ٹہرتا ہے کہ اس کی پیشانی پر جلی حروف میں یاحسین لکھا ہے اور یہی وہ نام ہے جو عشق کے مضمون کا عنوان قرار پاتا ہے ۔ اسی لیئے عشق غیور کو سرخروئی کا تاج ملا اور انسانیت کو معراج نصیب ہوئی ، یہی اقبال کے نزدیک عشق کے مضمون کی سرخیٔ سوخ ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اگر امام علیمقام اس درد پر آشوب میں جب کہ باطل اپنی طاقت کے زعم میں حق کو ملیامیٹ کر نے پر تلا ہوا تھا آوازۂ حق بلند نہ کرتے تو اسلام کے نقوش دھند لا کر رہ جاتے ہیں ، توحید کا سبق یکسر دل و دماغ سے محوہو جاتا اور محمد رسول الہ کہنے والا کوئی نہ ہوتا حتیٰ کہ گلدستہ اذان سے اشہد ان لا الہٰ الا ا للہ کی صدائے بازگشت بھی سنائی نہ دیتی ۔ اس میں شک نہیں کہ اگرامام حسین علیہ السلام اپنی اوراپنے عزیزوں اور یارو انصار کی قربانی راہ خدا میں نہ دیتے تو یقیناً یہی ہو تا جس کی نشاندہی شاعر نے کی ہے یہ تو حضرت امام حسین نے جہاں اپنی قربانی دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے وعدے ''وفدیناہ بذبحٍ عظیم'' کی گواہی دی ہے وہیں نبی اکرم ۖ کے ااس بلند بانک دعوے ''حسین منی و انا من الحسین ''کی صداقت کو'' الم نشرح ''کر دکھایا ۔ ''حسین منی و انا من الحسین '' حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں حسین جس نسل کی یاد تھے وہ صدیوں سے قربانی و فداکاری کے ایک مسلسل تاریخ تیار کر رہی تھی یہ عام قاعدہ ہے کہ بچے جب اپنے بزرگوں کے حالات سنتے ہیں تو ان میں بچپن ہی سے ولولہ پیدا ہوتے ہیں کہ ہمیں بھی کوئی موقع ایسے کارنامے پیش کرنے کا مل جائے ۔اس لیئے عام فطرت کے تقاضوں اور ظاہری اسباب کے لحاظ سے یہ کہنا بلکل درست ہے کہ امام حسین کے لیئے علاوہ منصبی ذمہ داری کے خاندانی روایات اور بلند فطرت کا تقاضا یہی تھا کہ بچپن سے منتظر اور مشتاق رہیں کہ سچائی کی خدمت ،غریبوں کی مدد ،مظلوں کی دستگیری اور ہمدردی کا کوئی موقع پیش آئے اور آپ بھی حق کی حمایت میں اپنے فریضے کو انجام دے کر اپنی خاندانی روایات کو زندہ اور برقرار رکھیں ۔حضرت امام حسین اسلام کی حفاظت اور اعلیٰٔ کلمۂ حق کو حقیقت اور عدالت و فضیلت کو زندہ رکھنے اور نگہداشت کرنے میں ان تمام امتیازی وابستگیوں اور امکانی تعلقات سے جو کچھ کسی شخص کی انفرادی حیثیت سے محبت و دوستی کا باعث ہو تے ہیں صرف نظر فرمایا اور مقصد و حدف کے حصول کے لیئے مال و جان و فرزند اور زندگی کے تمام علائق سے دست بردار ہو گئے اس وقت جبکہ قریب تھا پیغمبر علیقدر اسلام کی ٢٣ سالہ تمام زحمتیں ،کوششیں اور کاوشیں اور مجاہدین راہ حق کی کوششیں اور جان فشانیاں بے کار اور پائمال ہو جائیں اور اسلام حقیقی لوگوں کے درمیان سے یکسر غائب و نابود ہو جائے اور ایسے حا لات میں جبکہ اسلام حکام جور کے ہاتھوں میں ایک کھلونے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا تھا حضرت سید ا لشہداء نے قیام فرمایا اور مدینے سے رخصت ہوتے وقت فرمایا '' جو شخص اس بات کے لیئے آمادہ و حاضر ہو کہ ہمارے اس مقدس مقصد کی راہ میں جو ہمارے پیش نظر ہے اپنا خون و دل نثار کرے اور اپنی زندگی اور شخصی تعلقات سے دست بردار ہو جائے وہی شخص ہمارے قافلے میں شامل ہو اور چلے'' حضرت امام حسین نے دوران سفر راستے میں اپنی راہ میعن فرمائی تھی اور فرمایا : میرے دوستو ! اور ساتھیو ! یہ تمہیں معلوم ہونی چاہیئے کہ زمانے کی ہیٔت و حالت دگرگوں ہو چکی ہے برائیاںظا ہر ہو گئی ہیں، نیکیاں و اچھائیاں ،خوبیاں اور فضیلتیں ہمارے ماحول سے رخت سفر باندھ چکیں اور رخصت ہو چکی ہیں اور مراد اسلام کے برخلاف حالات سامنے آگئے ہیں ۔انسانی فضائل میں سوائے ایک قلیل مقدار کے کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا ہے ٹھیک ایسے ہی جیسے پانی گراتے وقت معدودچند قطرے ظرف آب پر معلق رہ جاتے ہیں آج لوگ رسوائی و بے حیائی کے ماحول میں جس کے ساتھ ننگ و عار ذلت بھی شامل ہے زندگی گزار رہے ہیں آج حق و حقیقت پر عمل نہیں ہوتا اور باطل و ناجائز امور سے پرہیز اور روگردانی کا کوئی وجود نہیں ہے ایسے میں مناسب و سزاوار یہیں ہے کہ با ایمان و بافضیلت انسان فداکاری و جانبازی کا ثبود دے اور اپنے پروردگار سے ملاقات اور اس کے فیوض حا صل کرنے کے لیئے سبقت و جلدی کرے . میں ایسے جبرو تشدد سے معمور ماحول میں اور ان خرابیوں سے بھرپور فضا میں موت کو فقط سعادت وخو ش نصیبی سمجھتا ہوں اور ان جابروں اور ستمگروں کے ساتھ زندہ رہنے کو سوائے جانکاہ رنج وملال کے اور کچھ نہیں جانتا ۔ حضرت امام حسین رضائے خدا کی خاطر اپنی قربانیاں پیش کر کے رضائے الٰہی کی بلندیوں پر پہنچے کیونکہ توحید خدا کا کمال یہ ہے کہ محوّد اپنے کو حق تعالیٰ پر قر بان کردے اور تمام منزلوں سے گزرے اسی لیئے خدا وندعالم نے فرمایا'' وفدیناہ بذبحٍ عظیم '' ۔ علاّمہ اقبال اس سلسہ میں فرماتے ہیں :

 



back 1 2 3 4 5 6 7 next