حضرت زہرا (ع) کا جناب مریم اور دیگر معصوم خواتین کی طرح درجہ عصمت پر فائز ہونا



وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی ۔ وہ وہی بولتے ہیں جو وحی بولتی ہے ۔

اسی طرح قرآن کی دیگر آیات بھی ہیں جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی پیروی کا حکم بھی دیتی ہیں ۔

اب ہم ان مقدمات کی روشنی میں حضرت محمد مصطفی کی ایک حدیث کو نقل کرتے ہیں اور پھر یہ بیان کرینگے کہ یہ حدیث کیسے ہمارے دعوی کی دلیل بن سکتی ہے ۔

تحشر ا بنتی فاطمۃ و علیھا حلۃ الکرامۃ قد عجنت بماء العیوان ، فینظر الیہا الخلائق فیتعجبون منھا ، ثم تکسی ایضا من حلل الجنۃ الف حلۃ ، مکتوب علی کل حلۃ بخط اخضر ، ادخلو ا بنت محمد الجنۃ علی احسن الصورۃ و احسن الکرامۃ ، و احسن فنظر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)

تاریخ دمشق / ابن عسا کر ج١٢ ص ٨٦ ۔ مقتل الحسین / والخوازمی ج١ ص ٥٢

میری بیٹی فاطمہ قیامت کے دن با وقار لباس میں ملبوس وارد محشر ہونگی ، ایسا لباس جو آب حیات سے بنا ہوا ہو گا ۔ تمام لوگ اس منظر کو دیکھ کر تعجب میں پڑ جائینگے ، پھر حضرت زھرا کو ہزاروں بہشتی حلوں سے مزین کیا جائے گا ، ہر حلہ پر سبز رنگ سے یہ عبارت مرقوم ہوگی اے محمد بن عربی کی دختر نیک اختر ، بہترین صورت ، باوقار انداز اور خوش نما منظر کے ساتھ بہشت میں داخل ہو جائیں ۔

اور قیامت جیسے برحق دن ممکن نہیں کہ خدا کی عدالت کے نظام میں ذرا برابر تبدیلی واقع ہو ، اور انسان کو جو صورت عطا ہو گی وہ اس کے دنیاوی اعمال کا نتیجہ ہوگی ۔ پس اس شخص کو انتہائی خوبصورت ، کامل ترین ، اور مثالی صورتسے نوازا جائے گا ، جو پاکیزہ ، کامل ، اور مثالی سیرت اور نیک کردار کا مالک ( اس دنیا میں )رہا ہو ۔

پس اگر انسان عملی اعتبار سے سب سے بہتر اخلاق سے آراستہ افراد میں سب سے بر تر اور عملی میدان میں سب سے بڑھ کر نہ ہو تو کیسے ممکن ہے کہ اسے قیامت کے دن سب سے بہترین صورت میں لایا جائے ۔

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے بارے میں یہ فرمانا کہ فاطمۃ بضعۃ منی (١) فاطمہ میرا ٹکڑا ہے

و فاطمۃ روحی التی بین جنبی ، مبالغہ آرائی نہیں ہے ۔ ( حضرت زھرا کی عظمت ہمارے ناقص اذھان میں سما ہی نہیں سکتی ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next