حضرت زہرا (ع) کا جناب مریم اور دیگر معصوم خواتین کی طرح درجہ عصمت پر فائز ہونا



الرجس : اس کلمہ میں الف و لام یا تومعھود ذہنی کے لئے ہے ، یا جنس کے لئے استعمال ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ معھود ذہنی کے لئے نہیں ہے کیونکہ گذشتہ کلام میں ( یعنی آیہ تطھیر سے پہلے ) رجس کا ذکر نہیں ہے کہ جس کی طرف الف و لام کی باز گشت ہو لہذا ، الف و لام ،جنس کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ کلمہ رجس میں عمومیت پائی جاتی ہے اور اگر رجس کا ایک مصداق بھی متحقق ہو جائے تو کلام خدا صادق نہیں رہتا کیونکہ خدا کا ارادہ ہر قسم کی پلیدی سے دور اور طہارت میں منحصر ہے ۔

اب کلمہ رجس کو قرآن کی رو سے پرکھتے ہیں ۔

ارشاد رب العزت ہے ، و من یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقا حرجا یصدفی السماء کذلک یجعل الرجس علی الذین لا یو منون ۔ (١)

اور جسے گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو ایسا تنگ گھٹا ہوا بنا دیتا ہے گویا وہ آسمان کی طرف چڑھ رہا ہو ، ایمان نہ لانے والوں پر اللہ اس قسم کی نا پاکی مسلط کر دیتا ہے ۔اور و اما الذین فی قلوبھم مرض فزادتھم رجس الی رجسھم وما تو اھم کافرون (٢)

اور البتہ جن کے دلوں میں بیماری ہے ان کی نجاست پر اس نے مزید نجاست کا اضافہ کیا ہے اور مرتے دم تک کفر پر ڈٹے رہے ۔

پھر ارشاد رب العزت ہے : قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما علی طاعم الا ان یکون میتۃ او دما مسفو حا او لحم خنزیر فانہ رجس ،

کہہ دیجئے جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام ہو مگر یہ کہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو سور کا گوشت کیونکہ یہ نا پاک ہیں ۔

(١) سورہ انعام ٦ / ١٢٥ (٢) سورہ توبہ ٩/ ١٢٥ (٣) سورہ انعام ٦/ ١٤٥

آپ نے آیات کریمہ کو ملاحظہ فرمایا ، پہلی دو آیات میں رجس معنوی نجاست اور آخری آیت میں رجس کو مادی نجاست کے لئے استعمال کیا گیا ہے لہذا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل بیت ؑ ہر قسم کی نجاست سے پاک و منزہ ہیں ۔

اسی بنا پر علماء فرماتے ہیں رجس سے دوری سے مراد یقیناً عصمت ( اہل بیت علیہم السلام) ہےں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next