معرفت امام (امامت خاص)



 Ø§ÙˆØ± ان کا عمل Ùˆ فعل ایک طرف دنیا Ú©Û’ طول Ùˆ عرض اور دوسری طرف اس Ú©ÛŒ ابتداء اور انتہا پر الٰہی قدرت Ú©ÛŒ وسعت Ú©Ùˆ ظاہر کرتا ہےاور ملحدین،مشرکین اور تکبر کرنے والوں Ú©ÛŒ خطاووں Ú©Ùˆ آشکار کرتا ہے۔

{وَمَا قَدَرُوا اﷲَ حَقَّ قَدرِہِ وَالأَرضُ جَمِیعًا قَبضَتُہُ یَومَ القِیَامَۃِ وَالسَّماوَاتُ مَطوِیَّاتٌ بِیَمِینِہِ سُبحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشرِکُونَ} [86]

اور ان لوگوں نے اللہ کی قدر شناسی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے اور قیامت کے دن پوری زمین اس کے قبضے میں ہوگی اور آسمان اس کے دست قدرت میں لپیٹے ہوئے ہوں گے وہ پاک اور بالاتر ہے اس شرک سے جویہ کرتے ہیں"

امام عصر (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) {وَأَنَّ اﷲَ قَد أَحَاطَ بِکُلِّ شَیئٍ عِلمًا} کے روشن مظہرہیں اور آپ ساری کائنات اور انسانی امور پر احاطہ رکھتے ہیں کیونکہ آپ زندگیوں کا مرکز اور عالم امکان کےقلب ہیں۔ وہ صرف، جمادات، نباتات، آسمان ،زمین ،دریا اورصحرا ہی کے قلب نہیں ہیں بلکہ ہر چیز کے قلب ہیں۔ انسان کا دل اس کے اعضاء وجوارح کو کنٹرول کرتا ہے، ایک اور دل ہے جو انسانوں کے دلوں کی نگہبانی کرتا ہے۔ ہر وہ چیز جو دل میں خطور کرتی ہے، ولی عصر (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) خدا کے اذن سے اسے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ جس طرح ہاتھ اور آنکھ کے اعمال کو دل جانتا ہے اور اس سے بے خبر نہیں ہے، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ ہمارادل کسی چیز میں مشغول ہو یا کوئی انجام دے، اور دلوں کے دل، جانوں کی جان یعنی ولی امام زمانہ (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) اس سے باخبر نہ ہوں۔

زندگیوں کے مرکز کے متعلق گفتگو، عقل منفصل کی مانندنہیں ہیں جیساکہ دوسروں کا خیال تھا کہ یہ بشر کی ذات سے جدا ایک چیز ہے، بلکہ جس طرح ہمارا دل، ہماری سمجھ بوجھ اور حرکت کرنے کی قوتوں سے جدا نہیں ہیں، ان پر حقیقی طور پرتسلط رکھتا ہے، حقیقت میں انسان کامل بھی ہم پر اس طرح حقیقی تسلط رکھتا ہے اور اس آیت

{وَقُل اعمَلُوا فَسَیَرَی اﷲُ عَمَلَکُم وَرَسُولُہُ وَالمُؤمِنُونَ}[87]

"اور کہہ دیجئے:لوگو!عمل کرو کہ تمہارے عمل کو عنقریب اللہ اور اس کا رسول اور مومنین دیکھیں گے"

Ú©ÛŒ بنیاد پر جو کام بھی ہم انجام دیں، خدا، پیغمبر اور امام کہ جو انسان کامل کا نمونہ ہیں انہیں دیکھتے ہیں۔ اور وہ صرف ہمارے اعضاء Ùˆ جوارح Ú©Û’ کاموں سے باخبر نہیں ہیں بلکہ وہ ہمارے دل Ùˆ دماغ Ú©Û’ اعمال کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں جب تک کوئی قلب اور زندگیوں کا مرکزنہ ہو اور اس Ú©Û’ وجود Ú©Û’ آئینہ سے الٰہی اسماء وصفات Ú©Û’ انوارنہ چمکیں زندگیوں  پر اس طرح کا احاطہ اور حقیقی تسلط نہیں رکھ سکتا ہے۔

صاحبان نفس کی تاثیر

دینی مدارس اور یونیورسیٹیوں میں مفاہیم وعلوم کا ایک سلسلہ پڑھا جاتا ہے کہ جسے علوم حصولی سے یاد کیا جاتا ہے، یہ علوم اپنی معقول ترین شکل یعنی فلسفہ کی صورت میں بھی باہر کی دنیاسے کوئی روابط نہیں رکھتے ہیں۔ اور کسی مشکل کو حل نہیں کرتے ہیں کیونکہ علوم حصولی کی تمام تعلیمات صرف ذہنی صورت کی شکل میں ہیں اور جہاں باہر کی دنیا کی گفتگو پیش آتی ہے تو اس گفتگوکی حد صرف مفہوم کی حد تک ہوتی ہے کیونکہ باہر کی دنیا یا حقائق، حمل اولی کے اعتبار سے حقائق ہیں، لیکن حمل شایع کے لحاظ سے صرف مفاہیم اور ذہنی صورتیں ہیں، اور بالکل اسی بنیاد پر دینی مدراس اور یونیورسٹی کے بہت سے دانشور، مختلف علوم کو جاننے کے با وجود عمل کے میدان میں لغزش کا شکار ہوجاتے ہیں اور بعض بہت آسانی سے مقام عمل میں خطاؤں سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ یہ علوم، تو اپنے جاننے والے یعنی عالم پراثر انداز ہونے سے عاجز ہیں کہاں یہ کہ انسانوں اور دیگر موجودات عالم پر اثر انداز ہوں،یہ تو دور کی بات ہے۔

وہ چیز جو باہر کی دنیا میں مؤثر واقع ہوتی ہے وہ صاحب بصیرت انسان کا نفس اور وجودہےکہ جس کا نفس، خدا کی بندگی کی بناء پر بلندیوں تک پہنچااور اس علم سے کہ جسے اللہ تعالی، اولیاء الٰہی کے دلوں میں منور کرتا ہے،



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 next