معرفت امام (امامت خاص)



 â€œÙ„Ùˆ لا حضور الحاضر وقیام الحجۃ بوجود الناصر” ([6])

:اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی"

اس کا حکم وفرمان چونکہ خدا اور اس کے رسول کا حکم ہے لہٰذا بے چون وچرا اس کے حکم کی اطاعت کرنا سب پر واجب ہے:

 $tBur tb%x. 9`ÏB÷sßJÏ9 Ÿwur >puZÏB÷sãB #sŒÎ) Ó|Ós% ª!$# ÿ¼ã&è!qߙu‘ur #·øBr& br& tbqä3tƒ ãNßgs9 äouÂŽzÏƒø:$# ô`ÏB öNÏd̍øBr& 3 `tBur ÄÈ÷ètƒ ©!$# ¼ã&s!qߙu‘ur ô‰s)sù ¨@|Ê Wx»n=|Ê $YZÎ7•B } ([7])

: اور کسی مومن اور مومنہ Ú©Ùˆ یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب اللہ اور اسکے  رسول کسی معاملے میں فیصلہ کریں تو انہیں اپنے معاملے کا اختیار حاصل رہے اور جس نےاللہ اور اس Ú©Û’ رسول Ú©ÛŒ نافرمانی Ú©ÛŒ وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔

وہ معصوم جو اس مقام پر فائز ہے اور آخری پیغمبر کے تخت خلافت پر رونق افروز ہوتا ہے،آیت

{ ÓÉ<¨Z9$# 4’n<÷rr& šúüÏZÏB÷sßJø9$$Î/ ô`ÏB öNÍkŦàÿRr& } ([8])

   :نبی مومنین  Ú©ÛŒ جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے۔ Ú©ÛŒ بنیاد پر، وہی خاتم پیغمبر ï·º Ú©ÛŒ ولایت تشریعی وسرپرستی کا حق رکھتا ہے۔

پیغمبر اسلام حضرت محمد بن عبداللہ ﷺ کے بعد اس ولایت کا سلسلہ، حضرت امیرا لمؤمنین علیؑ سےشروع ہوا اور خاتم الاوصیاء حضرت حجۃ بن الحسن المہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) تک جاری رہے گا۔

اس نوارنی سلسلہ کا بیان صادق آل محمد ؑ کے فرمان میں یوں جلوہ نما ہے: خدا وند عالم نے حضرت رسول اکرم ﷺ کی وفات سے پہلے ایک کتاب جس پر سونے کے پانی سے مہر لگی ہوئی تھی، آنحضرتﷺ پر نازل کی اور فرمایا: اے محمد! یہ وصیت تمہارے اہل بیت کے برگزیدہ افراد کے لئے ہے۔ پیغمبر اکرم ﷺ نے جبرئیل سے پوچھا میرے برگزیدہ افراد کون کون ہیں؟ جبرئیل نے عرض کیا: علی بن ابی طالب اور ان کی اولاد علیہم السلام، نبی اکرم ﷺ نے یہ کتاب امیرالمؤمنین ؑ کوعطا کی اور انہیں حکم دیا: اس کی ایک مہر کھولو اور جو چیز اس میں ہے اس پر عمل کرو۔ حضرت امیرالمؤمنینؑ نے ایسا ہی کیا اور پھر اپنے فرزند حضرت امام حسن ؑ کوعطا کی انہوں نے بھی ایک مہر کھولنے کے بعد اس وصیت پر عمل کیا۔ اس کے بعد اس مکتوب کو حضرت امام حسینؑ کے سپرد کیا، انہوں نے بھی اپنے سے متعلق مہر کو کھولنے کے بعد دیکھا کہ اس میں لکھاتھا: اپنے گروہ کے ساتھ شہادت پر فائز ہونے کے لئے نکل پڑو کہ تمہارے بغیر انہیں شہادت نصیب نہیں ہوگی اور اپنی جان کو خدا کےحضوربیچ دو، انہوں نے بھی ایسا ہی کیا اور پھر اس کتاب کوامام علی بن الحسینؑ کے حوالے کر دیا، آنحضرتؑ اپنے سے متعلق مہر کو کھولتے ہی متوجہ ہوئے کہ اس میں لکھا ہے: سکوت سے کام لو! گھر میں بیٹھو اجل کے آنے تک اپنے پروردگار کی عبادت میں مشغول رہو اور آنحضرتؑ نے ایساہی کیا، پھر کتاب کو اپنے فرزندامام محمد بن علیؑ کو دیا، آنحضرتؑ اپنے سے متعلق مہر کو کھولتے ہی اپنے وظیفہ کو اس طرح پایا: لوگوں کے لئے حدیث بیان کرو اور فتوی دو اور اللہ عزّ وجلّ کے سوا کسی سے نہ ڈرو، کیونکہ کسی میں آپ کو نقصان پہچانے کی طاقت نہیں ہے [جب تک خدا کا اراداہ شامل حال نہ ہو] اور انہوں نے بھی ایساہی کیا،اور آخر کار مکتوب کو اپنے فرزندامام جعفر بن محمدؑ کے سپرد کیا۔ انہوں نے بھی اپنے سے متعلق مہر کو کھولنے کے ساتھ، یہ ذمہ داری پائی: لوگوں کے لئے حدیث بیان کرو، علوم اہل بیت علیہم السلام کی اشاعت کرو، اپنے صالح آباؤ اجداد کی تصدیق کرو اور اللہ عزّ وجلّ کے سوا کسی دوسرے سے خوفزدہ مت ہو کیونکہ تم خدا کی پناہ اور امان میں ہو،انہوں نے بھی ایساہی کیا اور اسے اپنے فرزند امام موسیٰ بن جعفرؑ کے حوالے کیا اورامام موسیٰ بن جعفرؑ اپنے بعد والے امام کے سپرد کریں گے اور وہ بھی ایساہی کریں گے یہاں تک کہ امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) قیام کریں۔([9])



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 next