خوف و حزن کی اہمیت اور اس کا اثر



     Ø§Ù†Ø³Ø§Ù† Ú©ÛŒ فطرت یہ ہے کہ جب دنیوی امور میں مست Ùˆ مدہوش ہوتا ہے تو خدا اور معنویات Ú©ÛŒ طرف توجہ نہیں کرتا ہے اس لئے قرآن مجید میں اس قسم Ú©ÛŒ مستی اور شادمانی Ùˆ مسرت Ú©ÛŒ مذمت Ú©ÛŒ گئی ہے

 <ÙˆÙŽ لَئِنْ اَذَقْنَاہُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْہُ لَیَقُولَنَّ ذَھَبَ السَّیِّئاتُ عَنِّی اِنَّہُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ>  ( ہود / Û±Û°)

     Ø§ÙˆØ± اگرہم Ù†Û’ پریشانی Ùˆ تکلیف Ú©Û’ بعد نعمت اور آرام کا مزہ چکھایا تو کہتا ہے کہ اب تو میری ساری برائیاں Ú†Ù„ÛŒ گئیں اوروہ خوش ہوکر اکڑنے لگتا ہے Û”

     Ø­Ø¶Ø±Øª علی علیہ السلام دنیا Ú©ÛŒ نعمتوں Ú©Û’ بارے میں مسرت اور شادمانی Ú©ÛŒ مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

< ․․ مَا بالکم تَفْرَحُون بالیَسِیر من الدُّنیٰا تُدرکونہ Ùˆ لَا یَحزُنکم الکَثِیر مِنَ الآخِرَة تُحرمونہ ․․․>  Û±#

تمھیں کیا ہوا ہے ،جب تھوڑی سی دنیا ملتی ہے تو خوشحال ہوتے ہو اور آخرت کے ایک بڑے حصہ سے محروم ہو کر غمگین نہیں ہوتے؟

    اس شادمانی اور مستی Ú©Û’ مقابلہ میں ماضی کا حزن Ùˆ غم اور مستقبل کا خوف قرار پایا ہے جو انسان Ú©Ùˆ خداوند متعال Ú©ÛŒ اطاعت عبادت Ùˆ بندگی کیلئے آمادہ کرتا ہے اسی لئے ان دو ذہنیتوں اور نفسانی احساس Ú©ÛŒ ستائش Ú©ÛŒ گئی ہے، جیسا کہ بعض روایتوں Ú©Û’ مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی جماعت میں حزن Ùˆ غم ہو ØŒ خداوند متعال اس جماعت پر اس حزن Ú©ÛŒ وجہ سے رحمت نازل فرماتا ہے  بنیادی طور پر ہدایت اور انبیاء Ùˆ اولیاء Ú©ÛŒ دعوت سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ØŒ جن Ú©Û’ دل میں خوفِ خدا ہو:

     <اِنَّمَا تُنْذِرُالَّذِینَ یَخْشَونَ رَبَّھُم بِالْغَیْبِ ÙˆÙŽ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ >   ( فاطر / Û±Û¸)

    آپ صرف ان لوگوں Ú©Ùˆ ڈرا سکتے ہیں جواز غیب خدا سے ڈرنے والے ہیں اور نماز قائم کرنے والے ہیں Û”

    جو لوگ خداوند متعال سے نہیں ڈرتے ØŒ ان پر انبیاء Ú©ÛŒ دعوت بے اثررہتی ہے اور ان Ú©ÛŒ تربیت نہیں ہوتی ہے ØŒ چنانچہ خداوند متعال فرماتا ہے :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next