تحریک کا بحران



دوسرے کئی واقعات کی طرح تحریکیں بھی بحرانوں کا شکار ہوتی رہتی ہیں‘ لیکن یہ قیادت کا فرض ہے کہ وہ تحریک کو بحران سے بچائے ۔ اگر بحران آبھی جائے تو قیادت اعتماد کر کے اپنی تحویل میں تمام ذرائع سے استفادہ حاصل کر کے بحران سے تحریک کو بچانے کی پوری کوشش کرتی ہے ۔ بحران کو سمجھنے میں سستی کرنے یا اس کی اہمیت کا صحیح اندازہ نہ لگا سکنے کی وجہ سے یا تو تحریکیں منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتیں ہیں یا ان کا رخ کسی دوسری طرف موڑ دیا جاتا ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس تحریک کے کچھ ممکنہ خطرات کا جائزہ لیں‘ کچھ خطرات ہماری نظروں سے اوجھل بھی رہ سکتے ہیں ۔

 

 

۱) غیر ملکی نظریات کا دخل

باہر کے نظریات دو طرح سے اثیر پذیر ہوتے ہیں‘ ایک دشمن کی طرف سے ہوتا ہے ۔ جب ایک معاشرتی تحریک ایسی منزل پر پہنچ جاتی ہے‘ جہاں اس میں پوری قوم کو حرکت میں لانے کی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے اور تحریک تیزی سے مقبول ہونے لگتی ہے تو اس وقت تحریک تمام دوسرے نظریات پر چھا جاتی ہے اور دوسرے نظریات کے حامی لوگ اس کی ناکامی کی کوشش شروع کر دیتے ہیں‘ وہ بیرونی نظریات تحریک کے اثر کو کم یا زائل کرنے میں ایک کردار ادا کرتے ہیں ۔

اسلام کے پہلے ادوار میں کچھ ایسا ہی ہوا‘ جب اسلام دنیا کے نقشے پر وسیع سے وسیع تر ہونے لگا تو اسلام کے دشمنوں نے اسلام کو مسخ کرنے کے لئے تحریفی جہاد کیا اور اسلام کے لیبل میں اپنے نظریات کو پھیلانے کی کوشش کی‘ جیسے صیہونی تحریکیں ۔ انہوں نے جس طریقے سے اسلامی اقدار کو مسخ کرنے کی کوشش کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے‘ لیکن اللہ کے ان صاحب علم حضرات کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جنہوں نے اس کی بروقت تشخیص کر کے اس کا مداوا کیا اور ان کے اثر کو زائل کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان حضرات کی کوششیں آج بھی جاری ہیں ۔

اسلام کے خلاف دوسرا طریقہ خود اسلام کے پیروؤں کے ہاتھوں استعمال ہوا‘ بعض دفعہ پیروکار مکتب فکر کو طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے دوسرے متوازی نظریات سے شعوری اور غیر شعوری طور پر متاثر ہو جاتے ہیں اور دوسرے نظریات کو اپنے مکتب کے رنگ میں پیش کرتے ہیں‘ اسی طرح کے حالات اسلام کے اولین ادوار میں پیش آئے‘ مثلاً کچھ لوگوں نے اسلام کی خدمت کے خیال سے یونانی فلسفہ‘ ایرانی رسومات و آداب اور ہندوستانی تصوف کو اسلامی تعلیمات میں شامل کرنے کی کوشش کی ۔ خوش قسمتی سے صاحبان دانش حضرات کی عمیق نظروں نے ان باتوں کو فوراً بھانپ کر ان کا تدارک کیا‘ انہوں نے ان کا تنقیدی جائزہ لے کر درآمد شدہ نظریات کی بیخ کنی کی ۔

آج جبکہ ایران میں اسلامی تحریک اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور دوسرے تمام مکتب ہائے فکر پر چھا چکی ہے تو ایسے حالات پیدا کئے جا سکتے ہیں جو اس تحریک کے رخ کو موڑنے یا اس کو ختم کرنے پر منتج ہوں ۔ ایک گروہ ایسا ہے جو مادیت پرستی کا واضح رجحان رکھتا ہے‘ لیکن ان کو احساس ہے کہ ان کے نعروں میں اتنی جاذبیت نہیں ہے کہ وہ ایرانی نوجوانوں کو متاثر کر سکیں‘ لہٰذا انہوں نے اپنے نعرہ کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش کی ۔ یہ قدرتی امر ہے کہ اسلام جن نوجوان اذہان میں آیا ان میں مادیت کا اثر پہلے سے موجود تھا‘ وہ مادیت کی لپیٹ میں تھے ۔ یہاں اسلام سطحی طور پر آیا اور ایسے نوجوانوں کے اذہان کو اسلام سے ہٹایا جا سکتا ہے‘ ایک دوسری صورت جو بہت خطرناک ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ایسے افراد جو بنیادی طور پر اسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہوتے اور بیرونی نظریات پر فریفتہ ہوتے ہیں‘ وہ اخلاقیات پر لکھنا اور بولنا شروع کر دیتے ہیں‘ حالانکہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ وہ دراصل بیرونی نظریے کے اخلاقیات کا پرچار کر رہے ہیں ۔ یہ اپنے آپ کو صرف اخلاقیات تک محدود نہیں رکھتے‘ بلکہ دوسرے علوم مثلاً تاریخ‘ فلسفہ‘ مذہب‘ پیغمبری کا تصور‘ اقتصادیات‘ سیاسیات‘ بین الاقوامیت اور تفسیر وغیرہ کے متعلق بھی بولنا اور لکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔

بحیثیت ذمہ دار شخص کے اور ان ذمہ داریوں کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر ڈالی ہیں‘ یہ اپنا فرض اولین سمجھتا ہوں کہ میں اسلامی تحریک کے ان بڑے بڑے لیڈروں کو کہ جن کی میرے ذہن میں بہت قدر و منزلت ہے‘ آگاہ کروں کہ وہ بیرونی نظریات پر اسلامی فکر کی مہر ثبت کر کے ارادی یا غیر ارادی طور پر اس کا پرچار کر رہے ہیں اور یہ بات اسلام کی بنیادوں کے لئے بہت ہی خطرناک ہے ۔

ہم ذمہ دار اشخاص ہیں اور ہم نے دور جدید زبان میں اسلام کے کئی پہلوؤں پر زیادہ لٹریچر شائع نہیں کیا ہے ۔ یہ یقینی بات ہے کہ اگر ہم نے پاک اور صاف پانی زیادہ مقدار میں جمع کیا ہوتا تو لوگ گندے پانی سے اپنے آپ کو سیراب نہ کرتے‘ اس کا حل یہ ہے کہ ہم اسلامی مکتب فکر کے نظریات کو آج کی زبان میں متعارف کرائیں ۔ ہمارے تعلیمی مراکز خاص طور پر جاگ چکے ہیں‘ لیکن انہیں ان عظیم تعلیمی فکری ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا چاہئے جو ان کے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں‘ انہیں اپنی مصروفیات کو تیز سے تیز تر کرنا چاہئے‘ وہ صرف فقہ اور بنیادی امور تک اپنے آپ کو محدود نہ رکھیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ دور جدید کے نوجوانوں کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکیں گے ۔



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next