تحریک کا بحران



اور اب ”مضارعہ“… مضارعہ یعنی مشابہت‘ جو شخص کسی معاشرے کی اصلاح کرنا اور اس کو بدلنا چاہتا ہے‘ اس کو خود اس معاشرے کے لوگوں جیسا نہیں ہونا چاہئے یعنی اس کو ان کمزوریوں سے پاک ہونا چاہئے‘ جن میں اس معاشرے کے لوگ مبتلا ہیں‘ تبھی وہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۱۱(ع)(ع)

و غیر تقی یا مر الناس بالتقی

طبیب ید اوی الناس وھو علیل

جہاں تک جسمانی بیماریوں کا تعلق ہے‘ یہ ممکن ہے کہ کبھی ایک بیمار دوسرے بیمار کی بیماری دور کرنے میں کامیاب ہو جائے‘ لیکن روحانی اور معاشرتی علاج کے معاملے میں یہ ناممکن ہے‘ اپنی ذات کی اصلاح معاشرے کی اصلاح پر مقدم ہے ۔ اسی طرح آپ نے ارشاد فرمایا:

”خدا کی قسم میں نے تم کو کسی ایسی بات کا حکم نہیں دیا جس پر حکم دینے سے پہلے خود عمل نہ کیا ہو اور تم کو ایسی بات سے منع نہیں کیا جس سے پہلے خود پرہیز نہ کیا ہو۔“

جو شخص عوام الناس کا امام و رہنما بننے کا خواہش مند ہے‘ اس کو پہلے خود اپنی ذات کی تعلیم و تربیت پر توجہ کرنا ہو گی‘ اس کے بعد عوام الناس کی تعلیم و تربیت کی باری آئے گی ۔ دوسروں کو تعلیم و ادب سے آراستہ کرنے والے زیادہ سے زیادہ محترم وہ شخص ہے جو خود اپنی شخصیت کو تعلیم و ادب سے سنوارے ۔

اور اب ”لالچ کی غلامی“… علی۱(ع)نے فرمایا:

الطمع دق موبد(نہج البلاغہ‘ کلمات قصاء‘ حکمت‘ ۱۸۱)

لالچ ایک جاودانی غلامی ہے‘ ہر قسم کی غلامی میں امید ہوتی ہے کہ مالک آزاد کر دے گا‘ لیکن لالچ جیسی غلامی میں تو ایسی کوئی امید نہیں ہوتی‘ اس غلامی میں وہاں کا اختیار آقا کی بجائے خود غلام کو ہوتا ہے‘ جو شخص احکام خدا کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہو اس کو ان زنجیروں سے آزاد ہونا چاہئے ۔

دینی مصلح کی کامیابی کے لئے روحانی آزادی لازمی ہے‘ جس طرح مصلحتوں کو پیش نظر رکھنے والا گھٹیا انسان خدائی اصلاح کے سلسلے میں کامیاب نہیں ہوتا‘ جس طرح خود بیماری میں مبتلا انسان اپنے معاشرے کو شفا نہیں دے پاتا‘ اسی طرح نفسانی طمع اور لالچ کا بندہ بھی دوسروں کو معاشرتی اور روحانی زنجیروں سے آزاد کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

اے پروردگار! تو دلوں اور ذہنوں کا مالک ہے اور سب دل تیرے اختیار میں ہیں‘ ہم کو سیدھے راستے پر قائم اور نفس آمارہ کے شر سے محفوظ رکھ!



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10