تحریک کا بحران



 

 

2) انتہائی قدامت پسندی

کسی بھی کام میں انتہا پسندی سے پرہیز اور میانہ روی اختیار کرنے سے کچھ مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے‘ میانہ روی کا راستہ نہایت ہی تنگ اور پُرخطر ہوتا ہے‘ ذرا سی بے احتیاطی اس راستے سے دور لے جانے کی موجب بن سکتی ہے ۔ مذہب میں ”صراط مستقیم“ کو ”بال“ سے زیادہ باریک قرار دیا ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس راستے پر ہر قدم سوچ سمجھ کر رکھنا چاہئے ۔

یہ ظاہر ہے کہ انسانی سوسائٹی کے سامنے نئے نئے مسائل ہیں اور ان کے حل کے لئے نئے طریقے اپنانے کی ضرورت ہے‘ عصر حاضر کے مسائل اور روز بروز کے پیچیدہ واقعات کا حل کرنا اسلامی تعلیمات کا دفاع کرنے والوں کا فرض ہے‘ اس لئے ایک مجتہد اور مرجع کا وجود ہر دور میں ضروری ہے‘ اس لئے زندہ مجتہد کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے‘ اگر تمام مسائل ایک ہی نوعیت کے ہوں تو پھر زندہ اور فوت شدہ مجتہد کی تقلید میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔

باحیات مجتہد جب دور حاضر کے مسائل پر توجہ نہ دے رہے ہوں تو وہ مردوں یا فوت شدگان کے زمرہ میں آ جاتے ہیں‘ قدامت پسندوں کا مسئلہ یہاں سمجھایا جا سکتا ہے ۔

کچھ دوسرے ”عوام زدہ“ ہیں‘ وہ عوام الناس کی حکمرانی سے متاثر ہیں اور ان کا معیار صرف عوام الناس کے مزاج پر منحصر ہوتا ہے ۔ عوام الناس عموماً پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں اور مستقبل اندیش نہیں ہوتے‘ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو موجودہ مسائل سے آگاہ ہیں اور سوسائٹی کے مستقبل پر نظر رکھتے ہیں‘ لیکن بدقسمتی سے وہ اسلام پر سختی سے کاربند نہیں ہیں‘ ان کے لئے صرف یہ معیار ہے کہ حالات کا رخ کس طرف ہے اور اس کو ”آزاد اجتہاد“ کا نام دیتے ہیں ۔

بجائے اس کے کہ وہ سچ اور جھوٹ کی پہچان اسلام کی کسوٹی پر کریں‘ وہ حالات کے رخ پر بہتے ہیں اور اقتدار اعلیٰ کے موڈ اور قوت کو اسلام کا معیار قرار دیتے ہیں‘ مثلاً ایک سے زیادہ شادی کو عورتوں کے دور غلامی کی نشاندہی قرار دیتے ہیں اور یہی کچھ پردہ کے متعلق کہتے ہیں ۔

وہ دلیل دیتے ہیں کہ مزارعیت‘ شراکت اور جاگیرداری‘ جاگیردارانہ نظام کے اثرات ہیں اور اس طرح بہت سے احکام کو وہ زمانہ رفتہ کے باقیات سمجھتے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ اسلام دین‘ عقل اور اجتہاد ہے اور اجتہاد اس کا متقاضی ہے کہ…

یہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ وہ معیار جو اصل تسنن کے روشن فکروں مثلاً عُبدہ اور اقبال نے مختلف مسائل کے بارے میں بیان کئے ہیں‘ جیسے عبادات اور محاصلات کے فرق کے بارے اور اجماع‘ اجتہاد اور شوریٰ وغیرہ کی مخصوص تشریحات کی ہیں‘ ان کے تصورات ہمارے لئے کہ ہم شیعہ عقائد کی ترقی پسندانہ اسلامی ثقافت کے ماحول میں پروان چڑھے ہیں‘ کبھی قابل قبول نہیں ۔ شیعہ فقہ‘ شیعہ حدیث‘ شیعہ کلام‘ شیعہ فلسفہ‘ شیعہ تفسیر‘ شیعہ فلسفہ اجتماع ایسے سنی علوم کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ واضح ہیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next