تحریک کا بحران



یہ سچ ہو سکتا ہے کہ جغرافیائی اور غیر جغرافیائی بنیادوں پر سُنّی دنیا شیعہ دنیا کی نسبت دور حاضر کی تہذیب اور اس کی مشکلات کے بارے میں زیادہ علم رکھتی ہے اور انہوں نے ان مشکلات کو حل کرنے کے لئے مستعدی سے کوشش بھی کی ہو گی ۔ اس کے مقابلے میں شیعوں نے ان مشکلات کے حل کے لئے زیادہ مستعدی نہیں دکھائی‘ لیکن پچھلے چند سالوں میں سنیوں اور شیعوں نے اس میدان میں جو کام کئے ہیں ان کے تقابل سے یہ معلوم ہوتا ہے‘ اہل بیت اطہار۱(ع)کے مکتب کی پیروی کی برکت سے شیعوں کے پیش کردہ نظریات زیادہ گہرے اور زیادہ منطقی ہیں ۔ ہم کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم عُبدہ‘ اقبال‘ فرید وجدی‘ سید قطب‘ محمد قطب‘ محمد غزالی جیسے حضرات کو اپنا ماڈل بنائیں ۔

بہرحال غیر معتدل جدت پسندی کا شکار شیعہ‘ سنّی دونوں ہیں‘ اس طرح کی جدت پسندی کا مقصد یہ ہے کہ اسلام میں سے اسلامی عناصر نکال پھینکے جائیں اور غیر اسلامی عناصر داخل کر دیئے جائیں اور یہ سب اس لئے کیا جاتا ہے کہ اسلام کو نئے زمانے کے سانچے میں ڈھالا جائے اور موجودہ زمانے کی نفسیات کے مطابق بنایا جائے‘ یہ تحریک کے لئے نقصان دہ ہے اور تحریک کے ارباب حل و عقد کا فرض ہے کہ وہ اس کی روک تھام کریں ۔

 

3) نامکمل چھوڑنا

پچھلے ایک سو سال کی اسلامی بیداری کی تحریکوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ ایک بدقسمتی نظر آئے گی کہ ان تحریکوں کی مذہبی قیادت میں ایک بنیادی کمزوری رہی ہے کہ انہوں نے دشمن پر مکمل کامیابی حاصل کرنے تک کوشش کی‘ لیکن آخر میں آ کر اپنی سرگرمیوں کو روک دیا اور اپنی ریاضت کا پھل دوسروں کے حوالے کر دیا اور غالباً دشمنوں کے ہاتھوں میں! اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی اپنی غصب شدہ زمین حاصل کر لینے کے بعد گھر میں آرام سے بیٹھ جائے اور دوسرے اس کی زمین کو آباد کر کے بیج بوئیں اور فصل کھائیں ۔ عراقی انقلاب شیعہ علمائے دین کی قیادت میں ابھرا‘ لیکن شیعہ مکتب فکر نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔

ایران کی آئینی تحریک بھی شیعہ علماء کے زیراثر تھی‘ لیکن نامکمل چھوڑ دی گئی اور اس سے صحیح نتائج بھی حاصل نہ کئے جا سکے‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایسا ڈکٹیٹر پیدا ہوا جس نے آئین کی حکمرانی کو صرف نام کی حد تک باقی رکھا‘ صرف یہ نہیں بلکہ لوگوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ ڈکٹیٹرشپ آئینی حکومت سے زیادہ فیض رساں ہے اور آئینی حکومت ایک گناہ ہے ۔ یہ بھی بڑے افسوس کی بات ہے کہ تمباکو کی تحریک بھی اس وقت نامکمل چھوڑ دی گئی جب معاہدہ کی منسوخی کا اعلان کیا گیا‘ حالانکہ یہ تحریک لوگوں کو صحیح اسلامی حکومت بنانے کے لئے متحد اور منظم کر سکتی تھی ۔

ایران میں موجودہ اسلامی تحریک ایک نظام سے انکار کی منزل پر ہے‘ لوگ متحد چٹان کی طرح استبدادیت اور نوآبادیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہیں‘ انکار کی منزل کے بعد ہمیشہ اثبات اور تعمیر کی منزل آیا کرتی ہے‘ ”لا اللہ کے بعد الا اللہ“ کی منزل ہے‘ کسی تحریک میں انکار و اثبات کی منزل کے بعد اثبات اور تعمیر کی منزل زیادہ کٹھن اور دشوار ہوتی ہے‘ آج مکتب کو اور علماء کو اس بات کا احساس ہونا کہ وہ اس کام کو ادھورا چھوڑیں یا مکمل کریں‘ ان کی ہوشیاری کی نشاندہی کرے گی ۔

4) موقع پرستوں کی رخنہ اندازیاں

کسی تحریک میں شامل موقع پرستوں کی رخنہ اندازیاں اور اثر و رسوخ سے اس تحریک کو بڑا خطرہ لاحق ہوتا ہے‘ یہ صحیح رہنما کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان کے اثرات کو زائل کریں اور ان کی کوششوں کو ناکام کریں ۔ کوئی تحریک جب ابتدائی دشوار منازل کو طے کر لیتی ہے تو اس تحریک کے باایثار‘ صاحب ایمان اور مخلص کارکنوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے‘ کیونکہ اس منزل کے پانے کے فوراً بعد موقع پرست ان کے گرد اپنا حلقہ بنا لیتے ہیں‘ دشواریاں اور مشکلات جتنی کم ہوتی جائیں گی‘ اتنے ہی زیادہ موقع پرست تحریک کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کریں گے ۔ وہ موقع پرست کوشش کرتے رہتے ہیں کہ سچے اور باایثار انقلابیوں کو بتدریج راستے سے ہٹاتے جائیں‘ یہ عمل اتنا زیادہ ہمہ گیر ہو چکا ہے کہ اب کہا جاتا ہے کہ

”انقلاب خود اپنے بچوں کو جھاتا جاتا ہے ۔“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next