تحریک کا بحران



لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ انقلاب خود نہیں ہوتا‘ جو اپنے بچوں کو نگل جاتا ہے‘ بلکہ یہ موقع پرست کی رخنہ اندازی اور ریشہ دوانی سے غفلت برتنے کا نتیجہ ہوتا ہے ۔

زیادہ دور نہ جایئے! یہاں ایران میں وہ کون لوگ تھے جو آئینی انقلاب لائے اور وہ کون تھے جنہوں نے انقلاب کی کامیابی پر اعلیٰ عہدے سنبھالے؟ اور اس کا آخری نتیجہ کیا نکلا؟

قوم پرست رہنما‘ قومی سورما اور آزادی کے تمام متوالے راستے سے ہٹا کر بھلا دیئے گئے اور انہوں نے بھوک و گمنامی کی حالت میں دم توڑ دیا‘ لیکن اس کے مقابلے میں وہ ”سورما“ جو آخری وقت تک انقلابیوں کے خلاف آمریت کے جھنڈے تلے لڑتے رہے‘ وزیراعظم کے عہدے پر پہنچے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آئینی حکومت کے بھیس میں مطلق العنانی وجود میں آئی ۔

موقع پرستوں نے اپنے ہتھیار اسلام کے پہلے دور میں بھی استعمال کئے‘ خلیفہ عثمان کے زمانے میں وزارت اور مشاورت کے اہم عہدوں پر وہ لوگ فائز ہو گئے جو اس قابل نہیں تھے اور جو اہل تھے ان کو یا تو ملک بدر کر دیا گیا یا ان کے حلقہ اثر کو محدود کر دیا گیا‘ مثلاً ابوذر غفاریؓ اور عمار یاسرؓ۔

قرآن نے فتح مکہ(سورئہ حدید‘ ۱۰) سے قبل کے انفاق‘ جہاد اور فتح کے بعد کے انفاق اور جہاد کا تذکرہ کر کے درحقیقت جو فتح مکہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد کے مومنوں‘ مجاہدوں اور اہل انفاق کے فرق کو واضح کیا ہے ۔ جنہوں نے فتح سے پہلے قربانیاں پیش کیں‘ وہ ان کی طرح نہیں ہیں جنہوں نے فتح کے بعد ایسا کیا۔ پہلے والے دوروں کی نسبت اعلیٰ وصفوں کے مالک ہیں‘ معنی صاف واضح ہیں کہ فتح سے پہلے صرف مصیبت و مشقت کے کڑوے گھونٹ تھے‘ لڑنے والوں کا یقین پختہ تھا اور ان کی قربانیں بے لوث اور سچی تھیں‘ وہ موقع پرستی اور ذاتی مفاد سے کوسوں دور تھے‘ لیکن فتح کے بعد قربانیاں اور کوششیں کسی ذاتی مقصد کے بغیر نہیں تھیں ۔

پہلے مجاہدین کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ

”آپ کے ۲۰ نفر کافروں کے ۱۰۰ نفر کے برابر ہیں‘ لیکن اگر ان میں یقین کامل پیدا نہ ہوا ہو‘ اسلامی روح ان کے اندر پوری طرح نہ سمائی ہوئی ہو اور وہ اسلامی تحریک پر پختہ یقین نہ رکھتے ہوں تو اسلام وہاں صرف موقع پرستی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور پھر ان کے ایک ۱۰۰ آدمی دشمن کے ۲۰ آدمیوں کے برابر ہوتے ہیں ۔“

مختصراً یہ کہ موقع پرستوں کے خلاف جہاد کرنا تحریک کو صہیح راستے پر چلانے کے لئے اشد ضروری ہے ۔

۵) مستقبل کی مبہم و غیر واضح منصوبہ بندی

فرض کریں کہ ہم ایک ایسے بے تکے اور بوسیدہ مکان کو ختم کرنا چاہتے ہیں جس میں ہم انتہائی مشکل حالات میں رہ رہے ہیں اور اس کی جگہ ایسا مکان بنانا چاہتے ہیں جس میں سابقہ مکان کے نقائص موجود نہ ہوں‘ ہمرای راحت و آرام کے ساز و سامان سے پوری طرح لیس ہو۔ اس صورت میں دو چیزیں ہمارے دماغ میں آئیں گی‘ ایک منفی احساس موجودہ بوسیدہ مکان کی برائیوں کے بارے میں اور مثبت احساس نئے مکان کے اوصاف کے بارے میں‘ جس کو ہم جلد سے جلد بنانا چاہتے ہیں ۔ منفی احساس کے ضمن میں ہم پر آشکارا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے‘ ظاہراً اس بات کی تشریح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہم اس فرسودہ مکان کو کیوں گرانا چاہتے ہیں‘ لیکن اس مثبت احساس کے حوالے سے اگر نئے مکان کے بارے ہمیں مفصلاً بتا دیا جائے کہ اس میں کیا کیا سہولتیں ہوں گی تو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی کہ ہم اس کو قبول کر لینے کے اعلان میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ کریں‘ لیکن جبکہ ایک صورت میں کہ نئے مکان کا کوئی پلان ہمارے سامنے نہ رکھا جائے اور صرف یہ کہا جائے کہ اس بوسیدہ مکان کو گرانے کے بعد ایک عالی شان مکان تعمیر کیا جائے گا‘ تو یہ ہمارے تجسس کو بڑھائے گا اور ساتھ ہی تشویش کا عنصر بھی نمایاں ہو گا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next