تحریک کا بحران



”اب تک تم اپنے دشمنوں سے ڈرتے تھے کہ وہ تم کو تباہ و برباد کر دیں گے‘ اب یہ پریشانی دور ہو چکی ہے‘ اب پریشانی خدا کی طرف سے ہے‘ اب تم اپنے دشمنوں اور کافروں سے نہ ڈرو‘ بلکہ مجھ سے ڈرو‘ کیونکہ میں تمہاری گھات میں ہوں ۔“

الیوم یئس الذین کروا من دینکم فلاتخشوھم واحشون

یعنی کیا؟ مطلب صرف یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کو صرف اس بات سے خطرہ ہونا چاہئے کہ وہ اللہ کے راستے سے ہٹ نہ جائیں اور خدا کو بھلا نہ دیں اور سنت کو بدل نہ دیں‘ یہ ناگزیر الٰہی قانون ہے کہ جو قوم خدا کے بتائے ہوئے راستوں سے بھٹک جائے تو خدا ان کی حالت کو بدل دیتا ہے ۔

ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما با نفسھم(رعد‘ ۱۶)

”خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی‘ جب تک وہ خود اپنی سوچ اور عمل سے اپنے آپ کو نہیں بدلتے ۔“

 

مصلح کی کامیابی کی شرطیں

میں اس مضمون کے اختتام پر مولائے متقیان حضرت علیہ علیہ السلام کے نہج البلاغہ میں منقول اقوال زرین میں سے ایک قول کو بیان کرنے کا شرف حاصل کرتا ہوں‘ جس میں انہوں نے چند ایسی خاصیتیں بتائی ہیں جو کہ ایک انقلابی مصلح کے لئے ضروری ہیں‘ میں اس کی تفسیر بیان کرنے کی بھی جسارت کر رہا ہوں ۔

انہوں نے فرمایا:

انما یقیم امراللہ سبحانہ من لا یصانع ولا یضارع ولا یتبع المطالمع(نہج البلاغہ‘ ۱۵۷)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next