تحریک کا بحران



ان جملوں کا مطلب ”فرامین خدا کی تائید کرنا“ ہے ۔

پچھلی صدی میں جتنے اسلامی مصلح گزرے ہیں‘ انہوں نے اس قول کو… ”اسلامی فکر کی احیاء“ سے تعبیر کیا ہے ۔ ذکر اس کا ہے کہ بعض ایسے موقعے آتے ہیں کہ کسی معاشرے میں خدا کے احکام زمین پر آ رہتے ہیں‘ ان کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور ان احکام کو دوبارہ نافذ کرنا ہوتا ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون شخص ہے جو اس پیغمبرانہ کام کو سرانجام دینے کی قدرت رکھتا ہے؟

علی علیہ السلام کے اقوال زرین میں لفظ ”انما“ تین خصوصیتوں کی شرط لگاتا ہے جن سے ایک مصلح کو محفوظ رہنا چاہئے‘ یہ ہیں:

”مصانعہ‘ مضارعہ (مشابہت) اور لالچ کی غلامی ۔“

لفظ ”مصانعہ“ کے لئے مجھ کو کوئی ایک ایسا لفظ نہیں مل سکا جو اس کے مفہوم کو پورے طور پر ادا کر سکے‘ مثلاً ”مصلحت“، ”احتیاط برتنا“ وغیرہ‘ یہ سب مصانعہ کے ذیل میں آتے ہیں لیکن مصانعہ کا مفہوم اس سے زیادہ وسیع ہے ۔ جب علی۱(ع)کے سامنے یہ تجویز پیش کی گئی کہ معاویہ کو معزول کرنے کے سلسلے میں جلدی نہ کریں تو اس بات کو علی۱(ع)اور ان کے رفقاء نے ”مصانعہ“ سے تعبیر کیا‘ یہاں تک کہ علی۱(ع)اس ”مصلحت“ کی خاطر اس بات پر بھی تیار نہ ہوئے کہ معاویہ ایک گھنٹہ بھی اپنے عہدے پر باقی رہے ۔ علی۱(ع)اس کو ”مصانعہ“ سمجھتے تھے‘ حالانکہ یہ اس طرح کی مصلحت تھی جس سے سیاست دان کام لیتے ہی رہتے ہیں ۔

بعض اوقات رفقاء اور احباب علی۱(ع)کے پاس آتے تھے اور منہ پر ان کی تعریف کرتے تھے‘ ان کی عظمت کا ذکر کرتے تھے اور ان کے لئے القابات استعمال کرتے تھے اور اگر امور و معاملات میں کوئی نقص نظر آتا تھا تو وہ گول کر جاتے تھے اور ظاہر نہیں کرتے تھے ۔ علی۱(ع)سختی سے منع کرتے تھے کہ یہ طرز عمل اختیار نہ کرو اور کہتے تھے کہ یہ طرز عمل ایک طرح کی ”مصانعہ“ ہے اور کہتے تھے:

لا تحالطونی بالمصانعہ ولا تکلمونی بما تکلم بہ الجبابرة

”مصالحت کے ساتھمجھ سے نہ ملا کرو اور میرے ساتھ وہ اندازِ گفتگو اختیار نہ کرو جو ظالم و جابر لوگوں کے ساتھ گفتگو کرتے وقت اختیار کیا جاتا ہے‘ یعنی خوشامد‘ چاپلوسی‘ تعریف و ستائش اور بڑے بڑے القابات سے اپنی گفتگو کو آراستہ نہ کیا کرو۔“

وہ صاف صاف کہا کرتے کہ مجھ کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ جب لوگ مجھ سے ملیں تو تکلفات و تعریف و ستائش کی بجائے نقائص اور عیوب کو صاف صاف بیان کر دیا کریں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next