تحریک کا بحران



احکام خدا کے صادر کرنے کے معاملے میں جھجک اور ہچکچاہٹ ”مصانعہ“ ہے‘ امور میں دوست‘ ساتھی‘ اولاد‘ رشتہ دار اور مرید کے ساتھ رو رعایت سے کام لینا ”مصانعہ“ ہے ۔

قرآن کریم میں لفظ ”ادھان“ آیا ہے‘ آج کل عام طور پر لفظ ”مداہنہ“ کا رواج ہے ۔ ”ادھان“ یعنی ”لیسپاپوتی“، یہ لفظ ایسے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جب کسی کام کو سنجیدگی سے انجام نہ دیا جائے صرف اوپری سطح پر‘ صرف ظاہر کو در ست کر دیا جائے‘ لیکن کام کی اسپرٹ کی طرف توجہ نہ کی جائے ۔

قرآن فرماتا ہے کہ

”کفار کو تو یہ پسند ہے کہ اہل مداہنہ میں سے ہوتے تاکہ وہ مداہنہ سے کام لیتے‘ مثلاً توحید‘ اخوت‘ مساوات‘ امتناع سود‘ ان سب کا ظاہر ٹھیک ٹھیک رہتا‘ نہ کہ ان کی روح اور ان کی حقیقت۔“

مختصر یہ کہ کفار چاہتے تھے کہ تم اہل مصانعہ ہوتے اور تم وہ نہیں ہو‘ پس محض ظاہر کو سنوارنے پر قناعت کر لینا ”مصانعہ“ ہے ۔

ہم بتا چکے ہیں کہ خدائی احکام کی تعمیل کے سلسلے میں دوستوں‘ اولاد‘ رشتہ داروں‘ مریدوں کے ساتھ رعایت برتنا ”مصانعہ“ ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ایک قصہ تاریخ میں درج ہے‘ جو اس لحاظ سے سبق آموز ہے:

”ایک دفعہ علی۱(ع)سپہ سالار کی حیثیت سے اپنے سپاہیوں کے ساتھ یمن سے واپس آ رہے تھے‘ یمنی پوشاکیں ان کے ساتھ تھیں‘ جو وہ بیت المال کے لئے لا رہے تھے ۔ نہ تو خود آپ۱(ع)نے ان میں سے کوئی پوشاک زیب تن فرمائی‘ نہ کسی سپاہی کو پہننے دی ۔ جب آپ۱(ع)مکہ سے ایک دو منزل کے فاصلے پر پہنچے (اس وقت رسول خدا حج کے لئے مکہ آئے ہوئے تھے) تو حضرت علی۱(ع)اپنی کارگزاری پیش کرنے کے لئے خود آگے بڑھ گئے اور آنحضرت۱کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر اپنے لشکر کے پاس واپس آئے تاکہ سپاہیوں کے ہمراہ مکہ میں داخل ہوں ۔ جس وقت آپ۱(ع)لشکر کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ سپاہیوں نے وہ پوشاکیں پہن رکھی ہیں‘ علی۱(ع)نے بغیر کسی ہچکچاہٹ‘ رو رعایت اور سیاسی مصلحت اندیشی کے وہ لباس اتروا لئے اور واپس رکھوا دیئے‘ سپاہیوں پر یہ بات گراں گزری ۔ جب یہ سپاہی آنحضرت کے حضور میں حاضر ہوئے تو آنحضرت ان سے مختلف مختلف سوالات کرتے رہے‘ اسلسلسے میں بھی پوچھا کہ کیا تم لوگ تم اپنے سپہ سالار کے رویے سے خوش ہو؟ وہ بولے کہ جی ہاں‘ لیکن… اور پھر انہوں نے پوشاکوں والا واقعہ بیان کیا‘ اس موقع پر حضرت علی۱(ع)کے بارے میں رسول خدا نے وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:

انہ لا خیش فی ذات اللہ

”وہ ذات خدا کے معاملے میں بہت سخت گیر ہیں ۔“

یعنی جہاں تک احکام خداوندی کا تعلق ہے وہ کسی مصانعہ اور رو رعایت سے کام نہیں لیتے‘ مصانعہ اور مصانعہ پسندی ایک طرح کی کمزوری اور برائی ہے‘ اس کے مقابلے میں سخت گہری کا اصول ہے جو ایک طرح خی دلیری اور طاقت ہے ۔“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next