امام موسیٰ کاظم و امام علی رضا علیهما السلام کے اخلاقی اعلی نمونے



”تیرے بندے کے گناہ عظیم ھیں لہٰذا تیری طرف سے بخشش سزاوار اور بہتر ھے“۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ھمیشہ خوف خدا سے گریہ کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کی ریش مبارک آنکھوں کے آنسوؤں سے تر ھوجایا کرتی تھی، آپ اھل بیت علیھم السلام اور خاندان نبوت کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے اور ھمیشہ مدینہ کے غریبوں کی رات کی تاریکی میں تسلی اور دلجوئی فرماتے تھے، ایک تھیلے میں درھم و دینار اور آٹا و کھجور رکھتے تھے اور غریبوں میں تقسیم کردیتے تھے، یہاں تک کہ ان کو یہ بھی پتہ نھیں ھوتا تھا کہ یہ لطف و کرم کس شخصیت کا ھے؟![1]

جود و کرم اور قناعت

محمد بن عبد الله بکری کہتے ھیں: میں مدینہ میں قرض لینے کے لئے گیا، تلاش کرتے کرتے تھک گیا لیکن کامیاب نہ ھو سکا، میں نے کہا:بہتر ھے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں جاؤ ںاور اپنی حالت کی شکایت کروں۔

میںآپ Ú©Û’ مزرعہ (کھیتوں ) پر گیا جو شہر Ú©Û’ بلندی پر تھے، امام علیہ السلام اپنے غلام Ú©Û’ ساتھ میرے پاس آئے، ایک ظرف آپ Ú©Û’ ہاتھ میں تھا جس میں گوشت Ú©Û’ چند Ù¹Ú©Ú‘Û’ تھے، آپ Ù†Û’ خود بھی کھائے اور مجھے بھی کھلائے، اس Ú©Û’ بعدمیری حاجت Ú©Û’ بارے میں سوال کیا، میں Ù†Û’ اپنا واقعہ بیان کردیا، امام علیہ السلام گھر آئے اور Ú©Ú†Ú¾ دیر بعد دوبارہ میرے پاس آئے پھر  اپنے غلام سے فرمایا: جاؤ، اس Ú©Û’ بعد اپنے ہاتھوں Ú©Ùˆ میری طرف بڑھایا اور ایک تھیلی مجھے عنایت فرمائی جس میں تین سو دینار تھے اور پھر وہاں سے رخصت ھوگئے، میں بھی اٹھا اور اپنی سواری پر سوار ھوکر مدینہ سے روانہ ھوگیا۔[2]

مخالفوں کی مدد اور ان سے محبت

عمر بن خطاب کی نسل سے ایک شخص مدینہ میں تھا جو ھمیشہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو تکلیف پہنچاتا رہتا تھا اور جب بھی آپ کو دیکھتا تھا آپ کی شان میں گستاخی کرتا تھا اور حضرت امیر الموٴمنین علی علیہ السلام کے بارے میں بدگوئی کیا کرتا تھا!

ایک روز آپ کے اصحاب نے آپ سے کہا: یابن رسول الله! ھمیں آزاد چھوڑ دیجئے تاکہ اس بدکار کا کام تمام کردیں، لیکن امام علیہ السلام نے ان کو اس کام سے سختی کے ساتھ منع کیا ۔

امام علیہ السلام نے اس شخص کے حالات معلوم کئے تو لوگوں نے بتایا کہ وہ مدینہ میں کاشتکاری کرتا ھے، امام علیہ السلام ایک سواری پر سوار ھوئے اور اس کی طرف روانہ ھوئے اور وہ اپنے کھیت پر مل گیا، امام علیہ السلام سواری کے ساتھ اس کے کھیت میں وارد ھوگئے، وہ شخص چلایا کہ ھماری فصل پر نہ چلو، لیکن آپ سواری پر ھی آگے بڑھتے رھے یہاں تک کہ اس کے پاس پہنچ گئے، سواری سے اترے اور اس کے پاس بیٹھ گئے، خندہ پیشانی اور کشادہ روئی سے گفتگو کرنے لگے اور اس سے کہاکہ: اپنی فصل کے لئے کتنا خرچ کیا ھے؟ اس نے کہا: مجھے نھیں معلوم، امام علیہ السلام نے فرمایا: تمھیں اس فصل سے کتنا ملنے کی امید ھے؟ اس نے کہا: امیدوار ھوں کہ دو سو دینارمجھے مل جائیں گے، امام علیہ السلام ایک تھیلی کہ جس میں تین سو دینار تھے اس کو عطا کئے اور فرمایا: اس فصل سے بھی خدا تمہاری امید کو پوری کرے، وہ شخص اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے آپ کی پیشانی کا بوسہ دیا اور آپ سے درخواست کی کہ میری گستاخی معاف فرمائیں۔

امام علیہ السلام نے ایک تبسم فرمایا جو راضی ھونے کی عکاسی کرتا تھا اور واپس پلٹ گئے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next