امام موسیٰ کاظم و امام علی رضا علیهما السلام کے اخلاقی اعلی نمونے



راوی کا کہنا ھے: امام علیہ السلام مسجد میں گئے تو دیکھا وھی شخص مسجد میں بیٹھا ھوا ھے، اس نے جیسے ھی آپ کو دیکھا تو اس نے کہا: خدا بہتر جانتا ھے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے اس شخص کے منھ سے امام کی تعریف سن کراس کے دوست جمع ھوگئے اور کہنے لگے کہ: واقعہ کیا ھے؟ تواس سے پھلے بد گوئی کیا کرتا تھا! اس نے کہا: بے شک جو کچھ میں نے اب کہا اس کو تم لوگوں نے سنا اور ان کے ساتھ امام علیہ السلام کے بارے میں بحث و گفتگو کی، اوروہ اس کے ساتھ مجادلہ اور مقابلہ کے لئے کھڑے ھوگئے!

جب امام علیہ السلام بیت الشرف تشریف لائے تو اپنے ان اصحاب سے کہا جو اس شخص کو قتل کرنا چاہتے تھے کہ: اس کے سلسلہ میں جو تم چاہتے تھے بہتر تھا یا جو میں چاہتا تھا وہ بہتر تھا؟ میں نے اس کا کام تھوڑی سی مقدار میں اصلاح کردیا اور اس کے شرّ کا خاتمہ کردیا۔[3]

بے نظیر بخشش

منصور دوانیقی نے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے چاہا کہ نوروز کی مبارک باد اور اس کے پیش کئے جانے والے تحفوں کے لئے (آپ کے پاس) بیٹھیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایاکہ: میں نے حضرت رسول اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کی احادیث میں جستجو اور غور کیا ھے، مجھے اس عید کے لئے کوئی حدیث دکھائی نھیں دی، اس دن عید منانا ایرانیوں کی رسم ھے اور اسلام نے اس کو نابود کردیا ھے اور ھم خدا کی پناہ مانگتے ھیں کہ جس کو اسلام ختم کرے اس کو زندہ کریں۔

منصور نے کہا: میں اس کام کو لشکر کے لئے سیاست کے طور پر انجام دیتا ھوں ، آپ کو خدائے بزرگ کی قسم دیتا ھوں کہ آپ بیٹھ جائیں، امام علیہ السلام بیٹھ گئے حکّام، امیر اور سرداران لشکر امام علیہ السلام کے پاس سے گزرتے تھے اور مبارک باد پیش کرتے تھے اور آپ کی خدمت میں تحفے پیش کرتے تھے، اور منصور کا خادم آپ کے پاس کھڑا ھواان تحائف کو شمار کر رہا تھا۔

اس پروگرام کے بعد ایک بوڑھا شخص آیا اور اس نے کہا: یابن رسول الله! میں ایک غریب اور تنگدست ھوں، آج کل میرے پاس کچھ بھی نھیں ھے جو آپ کو تحفہ دوں، میرا تحفہ تین بیت شعر ھیں جو میرے دادا نے آپ کے دادا (حضرت) حسین بن علی علیہ السلام کی شان میں کھے ھیں اور اس شخص نے ان اشعار کو پڑھا، امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے تمہارے تحفے کو قبول کرلیا بیٹھ جاؤ، خدا تم پر برکت نازل کرے۔

اور اس وقت منصور کے غلام کی طرف مخاطب ھو کر فرمایا: امیر کے پاس جا اور اس کو اس مال سے آگاہ کر، اور اس سے یہ معلوم کر کہ اس مال کا کیا کرنا ھے، چنانچہ غلام گیا اور اس نے واپس آکر کہا: منصور کا کہنا ھے: وہ تمام مال میری طرف سے آپ کے لئے تحفہ ھے، جو بھی کرنا چاھیں انجام دیں، امام علیہ السلام نے اس غریب بوڑھے شخص سے فرمایا: یہ تمام مال میری طرف سے تمہارے لئے تحفہ ھے۔!![4]

 

حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے اخلاقی نمونے

الٰھی اخلاق



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next