امام موسیٰ کاظم و امام علی رضا علیهما السلام کے اخلاقی اعلی نمونے



سفر میں مجبور ھونے والے کی مدد

الیسع بن حمزہ کہتے ھیں: میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں تھا اور آپ سے گفتگو کر رہا تھا، آپ کی بزم میں بہت سے لوگ جمع تھے جو آپ سے حلال و حرام کے سلسلہ میں سوالات کر رھے تھے کہ اچانک ایک بلند قامت شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں آیااور اس نے کہا: یا بن رسول الله! آپ پر میرا سلام ھو، میں آپ اور آپ کے آباء و اجداد کے دوستداروں میں سے ھوں، حج سے واپس لوٹ رہا تھا کہ میرا زاد راہ ہاتھوں سے نکل گیا اور اب میرے پاس سفر کے خرچ کے لئے کچھ باقی نھیں بچا ھے، اگر آپ مجھے اپنے شہر تک جانے میںمیری مدد کریں تو یہ خداوندعالم کی مدد ھوگی، اور جب اپنے شہر پہنچ جاؤں گا آپ کی عطا کردہ رقم کو آپ کی طرف سے صدقہ دیدوں گا، کیونکہ میں صدقہ کا مستحق نھیں ھوں۔

امام علیہ السلام Ù†Û’ فرمایا: خدا تم پر رحمت کرے، بیٹھ جاؤ، اور پھر میری طرف رخ کرکے مجھ سے گفتگو کرنے Ù„Ú¯Û’ ۔جب دوسرے لوگ آپ Ú©Û’ پاس سے اٹھ گئے اور وہ، سلیمان جعفری، خثیمہ اورمیرے علاوہ کوئی اور باقی نہ رہا توامام علیہ السلام Ù†Û’ فرمایا: کیا مجھے اجازت Ú¾Û’ کہ حجرہ میںجاوٴں، اس موقع پر سلیمان جعفری Ú©ÛŒ طرف رخ کرکے فرمایا: اے سلیمان! خداوندعالم Ù†Û’ تمہارے کام Ú©Ùˆ مقدم کیا Ú¾Û’ØŒ اس Ú©Û’ بعد اٹھے اور حجرہ میں وارد ھوگئے، Ú©Ú†Ú¾ دیر Ú©Û’ بعد واپس  آئے، دروازہ بند کیا اور اپنے ہاتھوں Ú©Ùˆ اوپر سے باہر نکالا اور فرمایا: خراسانی کہاں Ú¾Û’ØŸ خراسانی Ù†Û’ کہا: میں یہاں ھوں، فرمایا: یہ دو سو دینار Ù„Û’ لو، اپنے سفر Ú©Û’ لئے خرچ کرو اور اس سے برکت حاصل کرو، لیکن اس رقم Ú©Ùˆ میری طرف سے صدقہ نہ دینا، اور اب یہاں سے Ú†Ù„Û’ جاؤ کہ میں تمھیں نہ دیکھوں اور تم مجھے نہ دیکھو!!

اس کے بعد وہ شخص چلا گیا، سلیمان نے امام علیہ السلام سے عرض کی: میں آپ پر قربان! آپ نے سخاوت اور مہربانی کی،لیکن اپنے چہرے کوکیوں چھپا لیا تھا؟ فرمایا: اس خوف کی وجہ سے کہ سوال کرنے کی ذلت و خواری کو کہ میں نے اس کی حاجت پوری کردی ھے، اس کے چہرے پر نہ دیکھوں، کیا تم نے رسول خدا (صلی الله علیه و آله و سلم) کی حدیث نھیں سنی کہ مخفی طور پر نیکی کرنے کا ثواب ستّر حج کے برابر ھے، ظاہر طور پر برائی کرنے والا ذلیل و رسوا ھوتا، مخفی طور پر برائی کرنے والا بخش دیا جانے والا ھے کیا ھم سے پھلے بزرگوں کا قول نھیں سنا ھے!

”مَتیَ آتِہِ یَوماً لِاٴَطلُبَ حَاجَةً     

رَجعْتُ اِلَی اٴھلِی وَوَجْھِی بِمائِہِ“۔[9]

مزدور کی مزدوری

سلیمان بن جعفر جعفری کہتے ھیں: کسی کام کی وجہ سے حضرت امام رضا علیہ السلام کے ساتھ تھا میں نے گھر پلٹنا چاہا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ھمارے ساتھ چلو، اور آج رات ھمارے یہاں قیام کرو۔

چنانچہ میں امام علیہ السلام کی ساتھ روانہ ھوگیا اور غروب آفتاب کے وقت ھم امام علیہ السلام کے گھر پہنچے، آپ نے اپنے غلاموں پر ایک نظر ڈالی جو مٹی سے چار پایوں کے اصطبل یا کوئی دوسری چیز بنارھے تھے،اچانک آپ نے ایککالے شخص کو دیکھا جو آپ کے غلاموں میں سے نھیں تھا، فرمایا: یہ شخص کون ھے جو تمہارے ساتھ کام کر رہا ھے؟ غلاموں نے کہا: ھماری مدد کر رہا ھے اور ھم اس کو کچھ دیدیں گے، امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے اس کی مزدوری طے کرلی ھے ؟انھوں نے کہا: ھم جتنا بھی دیدیں گے وہ راضی ھوجائے گا، امام علیہ السلام یہ جواب سن کر بہت خشمگین ھوئے اور تازیانہ لیکر ان کی طرف بڑھے اور اس کوتاھی کی ان کو سزا دی ۔

میں نے کہا: میں آپ پر قربان! آپ کیوں اتنا پریشان ھوتے ھیں؟ فرمایا: میں نے ان غلاموںکو مکرر منع کر رکیا ھے کہ کسی کی مزدوری طے کئے بغیر کام پر نہ لائیں! تمھیں معلوم ھونا چاہئے کہ اگر کوئی شخص مزدوری طے کئے بغیر تمہارے لئے کام کرے اگر تین برابر بھی اس کی مزدوری میں اضافہ کروگے تو بھی سمجھے گا کہ اس کی مزدوری کم دی ھے، لیکن اگر مزدوری طے کرلو اور بعد میں اس کو ادا کردو تو تمہاری وفا داری پر شکر گزار ھوگا، اور اگر اس کو مزدوری تھوڑی بڑھا کر دیدی ، تو اپنے حق کو پہچانتے ھوئے اسے معلوم ھوگا کہ تم نے مزدوری زیادہ دی ھے۔[10]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next