امام موسیٰ کاظم و امام علی رضا علیهما السلام کے اخلاقی اعلی نمونے



توحید میں اخلاص

ابو صلت ہروی کہتے ھیں: جب حضرت امام رضا علیہ السلام ایک سیاہ Ùˆ سفید خچّر پر سوار ھوئے اور  نیشاپور میں وارد ھوئے تو اس وقت میں امام علیہ السلام Ú©Û’ ساتھ تھا، نیشاپور Ú©Û’ علماء اور دانشور حضرات امام علیہ السلام Ú©Û’ استقبال Ú©Û’ لئے آئے۔

جب آپ ”محلہ مربعہ“ میں پہنچے تو لوگوں نے آپ کے خچّر کی لگام لے لی اور کہا: اے فرزند رسول!آپکو اپنے پاک و پاکیزہ آباء و اجداد (صلوات الله علیھم اجمعین) کے حق کا واسطہ آپ ان سے کوئی حدیث ھمارے لئے بیان کریں۔

امام علیہ السلام جو اونی ردا پہنے ھوئے تھے؛ اپنا سر محمل سے نکالا اور فرمایا: ھمارے والد محترم موسی بن جعفر علیھما السلام نے اپنے والد بزرگوار جعفر بن محمد علیھما السلام سے، انھوں نے اپنے والد محترم محمد بن علی علیھما السلام سے، انھوں نے اپنے والد بزرگوار علی بن الحسین علیھما السلام سے، انھوں نے اپنے والدمحترم جوانان جنت کے سردار امام حسین علیہ السلام سے، انھوں حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام سے انھوں نے رسول خدا (صلی الله علیه و آله و سلم) سے حدیث نقل کی ھے کہ آنحضرت (صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا کہ : جبرئیل روح الامین نے خدائے عزّ و جلّ سے مجھے خبر دی ھے کہ : بے شک میں خدا ھوں، میرے علاوہ کوئی معبود نھیں ھے، میرے بندو! میری عبادت کرو اور تمھیں معلوم ھونا چاہئے کہ تم میں سے جو شخص ”لا الہ الاَّ الله “ کی شہادت کے ساتھ ملاقات کرے درحالیکہ اس (شہادت) میں اخلاص سے کام لے تو وہ میرے قلعہ میں وارد ھوگیا ھے، اور جو شخص میرے قلعہ میں داخل ھوگیا وہ میرے عذاب سے نجات پاگیا، لوگوں نے سوال کیا: یا بن رسول الله! خدا کی شہادت میں اخلاص سے کیا مراد ھے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی اطاعت، رسول الله (صلی الله علیه و آله و سلم) کی اطاعت اور ھم اھل بیت علیھم السلام کی ولایت۔[11]

کریمانہ خط

بزنطی بیان کرتے ھیں کہ: میں نے وہ خط پڑھا جوامام رضا علیہ السلام نے حضرت امام جواد ( امام محمد تقی) علیہ السلام کو بھیجا تھا، جس میں تحریر تھاکہ: اے اباجعفر! مجھے معلوم ھوا ھے کہ جب آپ بیت الشرف سے باہر نکلتے ھیں اور سواری پر سوار ھوتے ھیں تو خادم آپ کو چھوٹے دروازے سے باہر نکالتے ھیں، یہ ان کا بخل ھے تاکہ آپ کا خیر دوسروں تک نہ پہنچے،میں بعنوان پدر اور امام تم سے یہ چاہتاھوں کہ بڑے دروازے سے رفت و آمد کیا کرو۔

 Ø§ÙˆØ± جب سواری پر سوار Ú¾Ùˆ تو اپنے پاس درھم Ùˆ دینار رکھ لیا کرو تاکہ اگر کسی Ù†Û’ تم سے سوال کیا تو اس Ú©Ùˆ عطا کردو، اگر تمہارے چچا تم سے سوال کریں تو ان Ú©Ùˆ پچاس دینار سے Ú©Ù… نہ دینا، اور زیادہ دینے میں خود مختار ھو، اور اگر تمہاری پھوپھیاں تم سے سوال کریں تو Û²Ûµ/ درھم سے Ú©Ù… نہ دینا اگر زیادہ دینا چاھو تو تمھیں اختیار Ú¾Û’Û” میری آرزو Ú¾Û’ کہ خدا تم Ú©Ùˆ بلند مرتبہ پر فائز کرے، لہٰذا راہ خدا میں انفاق کرو ،اور خدا Ú©ÛŒ طرف سے تنگدسی سے نہ ڈرو![12]

دو پیراہن اور مال کا انفاق

ریان بن صلت کہتے ھیں کہ: میں خراسان میں حضرت امام رضا علیہ السلام کے دروازہ پر تھا، میں نے معمر سے کہا: تم میرے مولا و آقا کے پاس جاؤ اور ان سے کھو کہ ان کے پیراہنوں میں سے ایک پیراہن مجھے عطا کردیں اور ان درھموں میں سے عطا کریں کہ جن کا نام سکّہ ھے۔ معمر نے کہا: میں فوراً ھی امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوا، چنانچہ امام علیہ السلام نے اس طرح کلام کا آغاز کیا: اے معمر! ریان یہ نھیں چاہتے کہ میں اسے اپنا پیراہن دوں اور اپنے درھموں میں سے اسے بخش دوں؟ میں نے کہا: سبحان الله! یہ بات وھی ھے جس کو ابھی ابھی اس نے دروازہ پر کھی ھے!

حضرت امام رضا علیہ السلام مسکرائے اور پھر فرمایا: بے شک مومن کامیاب ھے، اس سے کھو : میرے پاس آجائے، چنانچہ وہ آئے اور مجھے امام علیہ السلام کے بیت الشرف میں لے گئے، میں نے امام علیہ السلام کو سلام کیا، امام علیہ السلام نے جواب دیا، اس کے بعد امام علیہ السلام نے اپنے پیراہنوں سے دو پیراہن طلب کئے اور مجھے عطا کئے، اور جب میں آپ کی خدمت سے رخصت ھونے لگا تو تیس درھم بھی مجھے عنایت کئے۔[13]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next