حضرات اھل بیت علیھم السلام کے ممتاز صفات



مثال کے طور پر درج ذیل شریفہ :

<۔۔۔ یَدُ اللهِ فَوْقَ اٴَیْدِیہِمْ ۔۔۔>[23]

”۔۔خدا کی قدرت سب قدرتوں سے بالاتر ھے۔۔۔“۔

اگر ”ید“ کے ظاہری معنی پر توجہ کی جائے کہ جس کے معنی ہاتھ کے ھیں، تو اس کا لازمہ یہ ھوگا کہ خدا کو صاحب جسم ھونے کا اقرار کریں جو ایک واضح و آشکار کفر ھے۔

اھل بیت علیھم السلام نے (کہ جن کے گھر میں قرآن نازل ھوا اور صرف یھی حضرات ھیں جو قرآن کے حقیقی معنی اور پیچیدہ اصطلاحات کو سمجھتے ھیں) ”ید“ کے معنی قدرت کے کئے ھیں، اور اس حقیقی معنی سے ھمیں یہ سمجھا دیا ھے کہ آیت میں ارشاد ھوتا ھے کہ خدا کی قدرت تمام قدرتوں سے بالاتر ھے۔

لیکن اھل سنت کے بہت سے مفسرین مخصوصاً ابن تیمیہ اور آج کل کے حجازی سلفی جو اھل بیت علیھم السلام اور ان کے علوم سے بے گانہ ھیں اور ہٹ دھرمی والے نظریات رکھتے ھیں اور صرف آیت کے ظاہر کو دیکھتے ھیں اسی وجہ سے مجبور ھیں کہ اس طرح کی آیات کے ظاہر معنی پر تکیہ کرتے ھوئے خدا کو نعوذ بالله جسم والا جانتے ھیں اور ایسی روایات کے پابند ھیں جو بنی امیہ کی گھڑی ھوئی ھیں اور <۔۔۔ لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْءٌ ۔۔۔>[24] جیسی آیات سے سو فی صد مخالف ھیں، اور یہ لوگ اپنے اسی کفر آمیز اور شرک آلود اعتقادات پر اصرار کرتے ھیں!

آخرت میں اندھا ھونے کے معنی

اسی طرح درج ذیل آیت میںھے:

<وَمَنْ کَانَ فِی ہَذِہِ اٴَعْمَی فَہُوَ فِی الْآخِرَةِ اٴَعْمَی وَاٴَضَلُّ سَبِیلًا>[25]

”اور جو اس دنیا میں (دل کا) اندھا ھے وہ قیامت میں بھی (دل کا) اندھا اور بھٹکا ھوا رھے گا“۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next