حضرات اھل بیت علیھم السلام کے ممتاز صفات



اگر لفظ ”اعمیٰ“ کو آنکھ کا اندھا معنی کریں تو اس کے معنی یہ ھوںگے : جو شخص اس دنیا میں اندھا ھے وہ آخرت میں بھی اندھا ھوگا۔

جبکہ بعض مومنین ایسے تھے توجو ایمان و عمل کے بلند درجات پر فائز تھے اور جن کا انبیاء و ائمہ علیھم السلام بہت زیادہ احترام کیا کرتے تھے اور قیامت میں اھل بہشت کی عظیم ہستیوں میں سے ھوں گے، اگر طے یہ ھو کہ ظاہری لفظ کے اعتبار سے معنی کریں تو پھر ھمارا اعتقاد یہ ھونا چاہئے کہ جو افراد ایمان و عمل صالح کے عظیم درجات پر فائز ھیں وہ روز قیامت بہشت اور عالم آخرت میں خدا کی نعمتوں کی خوبصورتی کو دیکھنے سے محروم ھوںگے حالانکہ یہ مطلب درج ذیل قرآن کی آیت سے مطابقت نھیں رکھتا :

<۔۔۔ وَفِیہَا مَا تَشْتَہِیہِ الْاٴَنفُسُ وَتَلَذُّ الْاٴَعْیُنُ۔۔۔>[26]

”۔۔۔اور وہاں ان Ú©Û’ لئے وہ تمام چیزیں Ú¾ÙˆÚº Ú¯ÛŒ جن Ú©ÛŒ دل میں خواہش Ú¾Ùˆ اور جو آنکھوں Ú©Ùˆ  بھلی لگیں۔۔۔“۔  

لہٰذا ایسے معنی کریں جس کو اھل بیت علیھم السلام نے بیان کیا ھے اور وہ ھے ”دل کا اندھا“۔

راسخون فی العلم کے ذریعہ قرآن کی تاویل و تفسیر

اس بنا پر Ú¾Ù… یہ دیکھتے ھیں کہ متشابہ اور مبھم آیات Ú©Ùˆ تاویل Ú©ÛŒ سخت ضرورت Ú¾Û’ØŒ یعنی ظاہری معنی Ú©Û’ علاوہ  دوسرے معنی Ú©Ùˆ اختیار کرنا، ایسا کام Ú¾Û’ جس Ú©ÛŒ ذمہ داری قرآن کریم Ù†Û’ صرف راسخون فی العلم Ú©Ùˆ دی Ú¾Û’ØŒ چنانچہ ارشاد ھوتا Ú¾Û’:

<۔۔۔ وَمَا یَعْلَمُ تَاٴْوِیلَہُ إِلاَّ اللهُ وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ۔۔۔>[27]

”۔۔۔حالانکہ اس کی تاویل کا علم خدا کو اور جو علم میںڈوبے ھوئے صرف انھیں ھے ۔۔۔“۔

راسخون فی العلم وہ حضرات ھیں جن کا علم و دانش مستحکم اور حقیقی ھے ایسا علم و دانش جس میں تغییر و تبدیل ممکن نھیں ھے جس کو خداوندعالم نے اپنے خاص بندوں کے دل میں راسخ کیا ھے اور وہ انبیا اور ائمہ علیھم السلام ھیں جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next