حضرت امام عصر(عج) کی معرفت کے دشوارہونے کے باوجود اس کا آسان راستہ



اس طرح ایک سنّت حسنہ رائج ہوگئی ہے کہ اس مبارک نام کے زبان پر آتے وقت، سننے والے آنحضرتؑ کے احترام اور ان کی یاد میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔

امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) کو بقیۃ اللہ کا نام دینے کی وجہ

یہ مبارک لقب "بقیۃ اللہ" قرآن میں آیا ہے [72] اس قرآنی نام کے لئے بہت ساری وجوہات ذکر ہوئی ہیں۔ قرآن کریم کے مطابق خود خدا کے سوا کوئی چیز باقی رہنے والی نہیں ہے اور صرف وہ چیز باقی رہے گی جس کااللہ تعالیٰ سے نہایت قریبی اور نہ ٹوٹنے والا تعلق ہو:

{ہُوَ کُلُّ شَیئٍ ہَالِکٌ إِلاَّ وَجہَہ}[73]

"ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے"

(وَجہَہُ) کی ضمیر، لفظی قریب سے قطع نظر معنوی قریب کی طرف پلٹنے کی صورت میں، خداوند عالم کی طرف پلٹ رہی ہے کہ وہ ہر چیز سے زیادہ تمام چیزوں کے نزدیک ہے اس وقت اس کا مطلب یہ ہوگا کہ: وجہ خدا کے سوا تمام چیزیں نابود ہونے والی ہیں۔ لیکن اگر ضمیر ظاہری مرجع اورلفظی قریب کی طرف پلٹ رہی ہوتو آیت کا اس طرح معنی کرنا چاہئے کہ ہر چیز کے وجہ کے علاوہ سب کچھ نابود ہونے والا ہے، ہر چیز کے لئے دو جہت یا وجہ ہیں:

۱۔ اس کا ذاتی اور خصوصی وجہ کہ جو فقر، فقد، زوال وتغیر کے سوا کچھ نہیں ہے۔

۲۔ اس کاالٰہی وجہ،یعنی رب کے ساتھ تعلق اور ایک بے نیاز اور قادر سرچشمہ کے ساتھ رابطہ کہ اس لحاظ سے یہ چیز خدا کی آیت شمار ہوتی ہےاور اس میں کسی قسم کی تغییر وتبدیلی کا تصور نہیں ہے۔ہر چیز کا وجہ الٰہی جس طرح بھی ظاہر ہو ہمیشہ اس بے نشان کا نشان ہے اور فانی ہونے والا نہیں ہے۔ہر جہت سے ملاحظہ کریں تو واضح ہوگا کہ وجہ اللہ یعنی وہ چہرہ جوخداوند عالم نے کسی مخصوص شیء یا کسی خاص فرد کو عطا کیا ہے، اور یہ چہرہ علم وعدل کی بنیاد پر باقی رہنے والا ہے؛ یعنی ہر وہ شخص جو ایک طرف سے موحّد اور وظیفہ شناس ہو تو دوسری طرف ان پہچانے ہوئے وظیفوں پر عمل کرے،تو وہ ایسا عالم عادل ہے کہ(وجہ اللہ)میں حصہ رکھتا ہے اور اسی حصہ کی مقدار میں بقاء سے بہرہ مند رہے گا اور قرآن کی تعبیر میں {او لَو بَقِیَّۃ} [74] سے ہے یعنی صاحبان بقا میں سےہے۔

اس بنیاد پر، چونکہ امام عصر (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) تمام انسانی معاشروں کی اصلاح کے لئے، اللہ تعالیٰ کاذخیرہ ہیں، لہٰذا انہیں بقیۃ اللہ کہتے ہیں، سارے معصومین علیھم السلام رسول اکرمﷺ سے لے کر خاتم اوصیاء امام زمان (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) تک بقیۃ اللہ ہیں اور عالم حقیقت میں ہمیشہ باقی اور انسانوں کی تربیت کے لئے موجود ہیں، اسی لئے الٰہی عالموں کے واضح اور مکمل مصداق اور جلوے صرف وہ ہیں جو امیر المومنین ؑ کی تعبیر میں، جب تک نظام کائنات برقرار ہے وہ بھی باقی ہیں:

 â€œØ§Ù„علماء باقون ما بقی الدہر”[75]

:"جب تک زمانہ باقی ہے علماء بھی باقی رہیں گے"



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next