شناخت امامت کا سلسله



جو شخص مر جائے اور اپنے زمانہ کے امام کی معرفت نہ رکھتا ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی: مَن مٰاتَ وَلَم یَعرِف إِمٰامَ زَمٰانِہٖ مٰاتَ مٖیتَۃَ الجٰاھِلِیَّۃَ” (۱)[7] اگر کوئی انسان مر جائے اس حال میں کہ اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانتا ہو تاکہ اپنے ولی کا مطیع قرار پائے تو وہ جاہلیت کی موت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوا ہے۔

جاہلیت Ú©ÛŒ موت جاہلیت Ú©ÛŒ زندگی Ú©ÛŒ علامت ہے کیونکہ موت زندگی کا Ù†Ú†ÙˆÚ‘ ہے۔ جو شخص اچھی زندگی گذار تا ہے اس Ú©ÛŒ موت بھی اچھی ہوتی ہے اورجو شخص بری زندگی گذارتا ہے وہ بری موت مرتا ہے کیونکہ موت صرف زندگی Ú©Û’ Ù†Ú†ÙˆÚ‘  Ú©Ùˆ Ú†Ú©Ú¾Ù†Û’ کا نام ہے، گویا زندگی ایک شربت Ú©ÛŒ طرح ہے جیسے انسان احتضار Ú©Û’ وقت چکھتا ہے۔ اگر شہد Ú©ÛŒ طرح شیریں ہو تو اس Ú©Û’ نیک وشیریں اعمال کا نتیجہ ہے اور اگر  زہریلی اورتلخ ہو تو بھی اس Ú©ÛŒ زندگی Ú©Û’ اعمال ہی کا نتیجہ ہے۔

{كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ}[8]

ہر جاندار کوموت کاذائقہ چکھنا ہے۔

موت یعنی تحول وتغیر، انسان دارالقرار کی طرف عازم سفر ہے اورتحول وتغیرکو چکھتا ہے اور ہضم کرتا ہے۔ موت کے بعد انسان ثابت اورہمیشہ باقی رہنے والے جہان میں حاضر ہوگا۔

موت کے بعد انسان ہر اختیاری تبدیلی اورعمل میں ہر نقل وانتقال (یعنی قوت سے فعل میں بدلنا) سے منزہ ہے، شربت موت چکھنے سے پہلے ہر تبدیلی اور کام ہونے کا راستہ کھلا ہوا ہے لیکن موت کے بعد نہ توبہ اور نظر ثانی کی گنجائش ہے اور نہ ہی مہلت مانگنے اور عمل صالح کے حصول کا امکان ہے ۔

دوسرایہ کہ ہم موت Ú©Ùˆ چکھتے ہیں نہ کہ موت ہمیں چکھتی ہے۔ ہم موت Ú©Ùˆ مارتے ہیں، موت ہمیں نہیں مارتی ہے،اسی لیے خداوند عالم Ù†Û’ یہ نہیں فرمایا ہے کہ موت انسان Ú©Ùˆ Ú†Ú©Ú¾Ù†Û’ والی ہے بلکہ فرمایا ہے کہ انسان موت کا ذائقہ Ú†Ú©Ú¾Ù†Û’ والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موت انسان Ú©Ùˆ فنا نہیں کرتی ہے بلکہ یہ  انسان ہے کہ جو موت Ú©Ùˆ ایک بار پھر ہمیشہ Ú©Û’ لئے نابود کر دیتا ہے، جیسے پانی Ú†Ú©Ú¾Ù†Û’ والا، پانی Ú©Ùˆ ہضم کرتا ہےنہ کہ پانی، Ú†Ú©Ú¾Ù†Û’ والے Ú©Ùˆ ہضم کرتا ہے۔

قرآنی تعلیمات میں موت، پیالہ میں بھرا ایک ایسا رس ہے جسے انسان چکھتا ہے، اندر اتارتا  ہے اور ہضم کرتا ہے، جو شخص اس دنیا میں زندگی گذار تا ہے، وہ اس Ù¾Ú¾Ù„ دینے والے پودے Ú©ÛŒ طرح ہے جو نشوونما پانےکے بعد Ù¾Ú¾Ù„ دیتا ہے، اس وقت اس Ù¾Ú¾Ù„ دار درخت Ú©Û’ پھلوں Ú©Ùˆ تو ڑتے ہیں، اس Ú©Û’ رس Ú©Ùˆ ایک پیالہ میں ڈالتے ہیں اور موت Ú©Û’ وقت انسان Ú©Ùˆ پلاتے ہیں۔ جو شخص اپنی زندگی Ú©Û’ دوران اپنے سماج ومعاشرہ Ú©Û’ لئے ایسا Ù¾Ú¾Ù„ دار درخت ہو کہ جس Ú©Û’ Ù¾Ú¾Ù„ ذائقہ دار ہوتے ہیں، تو اس کا رس بھی شہدوشیرین ہوگا اور موت بھی ایسے شخص Ú©Û’ لئے شیرین ہوگی۔ لیکن جس‌کی زندگی  اندرائن  Ú©Û’ درخت  Ú©ÛŒ طرح ہو کہ جس کا نتیجہ صرف دوسروں سے تلخی ØŒ اذیت اورظلم کرنا اور اپنے، اپنےاہل Ùˆ عیال ØŒ ماحولیات اور اسلامی حکومت سےبُرا سلوک کرنا ہے،کو ایسے شخص Ú©ÛŒ زندگی کا نتیجہ صرف تلخی ہے اور اس Ú©ÛŒ زندگی کا رس شیرین نہیں ہے۔

اس کی موت بھی تلخ وسخت ہے۔ جو شخص اچھی زندگی گذارے گا، اچھی موت کے ساتھ مرے گا اور جس نے تلخی کے ساتھ زندگی گذاری، اس کی موت بھی تلخ ہی ہوگی۔بقول شاعر:

اگر بارخار است خود کشتہ ای           وگر پر نیان است خود رشتہ ای [9]

یعنی تمہاری موت خواہ کانٹے کے بوجھ کی طرح ہو یا شہد کی طرح شیرین ہو، تمہاری زندگی کے اعمال ہی کا نتیجہ ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 next