قانون گذاری کے شرائط اور اسلام میں اس کی اہمیت



 

4۔ گذشتہ اعتراض کا جواب

گذشتہ اعتراض کے جواب میں دو نکتوں پر توجہ کرنا ضروری ہے، پھلا نکتہ یہ ہے کہ قانون کی مختلف اصطلاحیں ہیں ، کبہی کبہی کلی قواعد کو قانون کھا جاتا ہے، اور ان میں جزئی اور دوسرے دستور العمل شامل نہیں ہوتے ،اور کبہی قانون کو اتنی وسعت دی جاتی ہے کہ اس دستور العمل کو بہی شامل ہوتا ہے جو ایک ادارہ کا رئیس اپنے کارکن کو دیتا ہے،البتہ یہ اطلاق بہی نادرست نہیں ہے بھرحال دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ قانون کی دو اصطلاح ہیں ایک خاص اور ایک عام، اور دونوں صحیح ہیں، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اسلام میں بھت سے ثابت قوانین ہیں، جو کسی بہی وقت تبدیل نہیں ہوسکتے ،اورھر زمانہ میںتمام لوگوں کے لئے ثابت ہیں اور اسلام کے کچھ قوانین متغیرہیں، جو زمان ومکان سے لحاظ سے ہیں اوران قوانین کو فقھاء ومجتھدین جن کو دین کی صحیح شناخت ومعرفت ہوتی ہے کلی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے بناتے ہیں۔

ہم جس چیز پر زور دیتے ہیں وہ ایسے قوانین ہیں جو خداکی طرف سے ثابت قوانین ہیں اور متغیر قوانین کے لئے خاص شرائط ہیں ، ورنہ ممکن نہیں ہے کہ تمام ثابت متغیر قوانین کسی ایک قانون گذار کے ذریعہ بنائے جائیں، اور لوگوں کو تک پہونچائے جائیں، متغیر قوانین اپنے زمان ومکان کے اعتبار سے لاتعداد ہیں،اور ان کی کوئی حد نہیں، اور انسان کی ذہینت آغاز دنیا سے لے کر آخر تک کے متغیر قوانین کے تصور سے عاجز ہے، لھٰذا متغیر قوانین اپنے زمانہ کے اعتبار سے جو اس زمانہ اور مکان کا تقاضہ ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں، مثال کے طور پر چونکہ رسول اسلام کے زمانہ میں کوئی بہی موٹر گاڑی نہیں تہی تو اس موقع پر اگر یہ کھا جاتا کہ گاڑیوں کو داھنی طرف چلنا چاھئےے یا بائیںطرف، تو کیا اس وقت کے لوگ اس قانون کو سمجھ سکتے تہے، اور اس قانون کے معنی کو درک کرسکتے تہے؟ لھٰذا قانون کو اس کے زمانہ کے لحاظ سے ہونا چاھئے، البتہ ان قوانین کے کچھ خاص شرائط ہیں کہ جن کو خدا بیان کرتا ہے، لھٰذا جو لوگ ان متغیر قوانین کو مرتب کریں ان کے لئے ضروری ہے کہ ان شرائط کی رعایت کریں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قوانین وہ حضرات بناسکتے ہیں کہ جو ثابت قوانین اور متغیر قوانین کے شرائط کو بھتر طور پر جانتے ہوں۔

پس ہماری مراد اس قول سے کہ قوانین کو خداکی طرف ہونا چاھئےے، یہ ہے کہ ثابت قوانین ہمیشگی ہیں اور متغیر قوانین کے لئے بہی شرائط خدا کی طرف سے معین شدہ ہوں،جن کو متغیر قوانینکا میزان قرار دیا گیا ہے ، اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

(وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ اٴَلاَّ تَطْغَوا ِفیْ الْمِیْزَانِ) (1)

”اور ترازو (انصاف) کو قائم کیا تاکہ تم لوگ ترازو (سے تولنے) میں حد سے تجاوز نہ کرو“

الھٰی اور توحیدی نظریہ جس بات کی تاکید ہے اور تقاضا کرتا ہے وہ تیسرا نکتہ ہے جس کو ہم نے قانون بنانے کے سلسلہ میں گفتگو کے دوران بیان کیا، اور وہ یہ ہے : چونکہ قانون میں امر ونہی ہوتا ہے، او رجس کو قانون بنانے کا حق ہے اس کو امر ونہی کرنے کا بہی حق ہونا چاھئے، اور وہ خدا کے علاوہ کوئی نہیں ہے، خود انسان ایک دوسرے پر امر ونہی کا حق نہیں رکھتے لھٰذا قانون کو بہی نہیں بناسکتے اور نہ ہی اس کوجاری کرسکتے، لھٰذا اگر زمان ومکان کے لحاظ سے متغیر قوانین کو بنانا پڑے تو اس کی اجازت بہی خدا کی طرف سے ہو، کیونکہ صرف وہی ہے کہ جسے امر ونہی کا حق ہے،اور وہی دوسروں کو یہ حق عطاکرسکتا ہے تاکہ ان کے بنائے ہوئے قوانین معتبر ہوسکیں۔

 

5۔ قانون گذاری میں خدا کی اجازت بے اثر ہے .(دوسرا اعتراض)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next