قانون گذاری کے شرائط اور اسلام میں اس کی اہمیت



جب اس وقت ولی فقیہ امام زمانہ (عج) کی طرف سے یہ حق رکھتا ہے تو پھر دوسروں کو یہ حق نہیں ہے ، جس طرح امام زمانھ(عج) کو خدا کی طرف سے یہ حق ہے تو پھر کسی دوسرے کو یہ حق نہیں ہے،بھر حال جس شخص کوبراہ راست یا غیر مستقیم طور پر خدا وند کی طرف سے اجازت ہے وہ دوسروں کے امور میں تصرف اور دوسروں کو امر ونہی کرسکتا ہے، لیکن جس کو خدا کی طرف سے اذن نہیں ہے وہ امر ونہی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ،چنانچہ اس کی امر ونہی کا کوئی اثر نہیں ہے۔

(ہم اپنی نظری اور تہیوری بحث میں نہیں چاھتے کہ کسی کی گفتگو کی بناپر بحث کریں، لیکن امام خمینی ۺ کو دوسروں کی فھرست میں نہیں رکھا جاسکتا، ان کی گفتگو قرآن وحدیث سے اخذ شدہ ہوتی تہی، لھٰذا ان کی گفتگو سے دلیل پیش کرنے میں کوئی حرج نہیںہے) امام خمینیۺ اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں: ”یھاں تک کہ اگر کوئی صدر بہی ولی فقیہ کی طرف سے منصوب نہ ہو تو وہ طاغوت ہے اور اس کی اطاعت جائز نہیں ہے“(3)

صدر کو خود افراد اپنے ووٹ کے ذریعہ انتخاب کرتے ہیں لیکن اگر ولی فقیہ کی طرف سے اجازت نہ ہو تو امام خمینیۺ کے فرمان کے مطابق طاغوت ہے، او راس کا امر ونہی معتبر نہیں ہے، اور اس کی اطاعت بہی جائز نہیں ہے، حضرت امام خمینیۺ نے تمام صدرورئیس جمہور کو منصوب کرتے وقت فرمایا کہ میں تم کو منصوب کرتا ہوں،( بعض موقع پر آپ نے وضاحت کے ساتھ فرمایا کہ میں چونکہ تم پر الٰہی ولایت رکھتا ہوں اس وجہ سے صدارت پر منصوب کرتا ہوں) درحالیکہ لوگوں نے ان کو ووٹ دیا ہے اور ان کا ووٹ دینا بہی صحیح اور مورد تائید ہے۔

البتہ تمام لوگ بہی اجتماعی کاموں میں شرکت کریں اور ان کا شرعی وظیفہ ہے کہ ووٹینگ میں شرکت کریں،اسی وجہ سے جس وقت انتخابات شروع ہوتے تہے امام خمینیۺ فرماتے تہے: انتخابات میں شرکت کرنا ایک شرعی وظیفہ ہے او رتما م لوگوں کو شرکت کرنا ضروری ہے؛ لیکن ھر قانون گذار وصاحب منصب کا اعتبار خدا کی طرف پلٹنا چاھئے، کیونکہ وہی صاحب اختیار ہے ، خدا ہی نے پیغمبر او رائمہ معصومین علیہم السلام کو حکومت وقانون گذاری کی اجازت دی ہے، اور پیغمبر وائمہ معصومین علیہم السلام کی طرف سے عمومی طورپر ولی فقیہ منصوب ہوتا ہے جس طرح ان حضرات کے زمانے میں والی شھر وحاکم شھر معین ہوتے تہے،اور امام معصوم کی اجازت سے مشروعیت پیدا کرتا ہے اور جب ان کو اجازت مل گئی تو وہ معتبر ہوگئے۔

پس یہ اعتراض کہ اجازت ہونا یا نہ ہونا یا دستخط کرنا یا نہ کرنا قانون کے اجراء اور وضع کرنے میں کوئی فرق نہیں کرتا ،توجواب یہ ہے کہ فرق وہی فرق ہے کہ جو تمام اجتماعی امور میں فرق ہوتا ہے ، جس ڈی ایم کا ابہی حکم نامہ نہ آیا ہو اس کا دوسروں سے کیا فرق ہے؟ یا تعلیمی بورڈ کا آفیسرجس کا ابہی حکم نامہ نہیں آیا دوسروں سے کیا فرق رکھتا ہے؟ اگرچہ طے یہ ہے کہ ابہی کچھ دنوں کے بعد ان کا حکم نامہ آجائے گا، لیکن جب تک ان کا حکم نامہ نہ صادر ہو اس وقت تک ان کی کوئی اہمیت نہیں،جس وقت یہ حکم نامہ ان تک پہونچ جائے گا اس وقت سے وہ اس عھدے پر فائز ہوجائیںگے، صرف ایک دستخط سے یہ حضرات دوسروں کے مال میں تصرف کرسکتے ہیں، جس طرح اگر کوئی شخص اپنی لاکہوں کی دولت آپ کے سپرد کردے یا آپ کوبخش دے اور آپ کو اجازت دےدے کہ جس کام میں بہی چاہیں خرچ کریں یا کوئی اپنا مال عمومی طور پر وقف کرے یا کسی خاص آدمی کو بخش دے ، بھر حال صرف ایک لفظ کھنے سے کہ ”میں نے اپنا مال تمہیں بخش دیا“ کام تمام ہوجاتا ہے او راس مال میں دخل وتصرف حلال ہوجاتا ہے،لیکن اگر اس کی اجازت نہ ہو اور اس نے نہ بخشا ہو ،تو اس کے مال میں تصرف کرنا حرام ہے او راگر کوئی اس کے مال میں اس طرح تصرف کرے تو وہ مجرم ہے۔

نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ تمام اجتماعی مسائل اسی طرح کے اعتبارات پر ہوتے ہیں او رجب تک یہ اذن واجازت نہ ہوں اجتماعی امور میں وہ کام معتبر نہیں سمجھا جاتا، تو پھر کس طرح یہ کھا جاتا ہے کہ خدا کی طرف سے حکومت کرنے والے اور ان کو امر ونہی کرنے والے کو اجازت کی ضرورت نہیں ہے؟

کیا خدا کی اجازت کے بغیر اس کے بندوں پر حکومت کی جاسکتی ہے؟ لوگ ہمارے بندے تو ہےں نہیںکہ ہم کو ان پر حکومت کرنے کا حق ہو، لوگ خدا کے بندے ہیں حاکم وراعیٰ خدا کی نظر میں برابر ہیں اور جب تک خدا اجازت نہ دے تو پھر رھبر ،امت، رئیس اور عوام الناس سب برابر ہیں اور جب خدا اجازت دےدے تب لوگوں پر اس کے امر ونہی معتبر ہوتے ہیں۔

 

7۔کیا انسان اپنی زندگی پر حقِ حاکمیت رکھتا ہے؟

یھاں پر ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی پر خود حق حاکمیت رکھتا ہے ، اگرچہ ہم نے اس موضوع کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے لیکن چونکہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اخباروںاور دوسرے رسالوں او ربعض موٴدب افراد کی تقریروں میں بیان ہوتا ہے یھاں تک ”ٹی .وی“ کے بعض کانفرنسوں میں بیان ہوتا ہے کہ لوگوں کی آزادی قابل احترام ہے،جیسا کہ قانون اساسی میں بہی موجود ہے کہ لوگ اپنی زندگی پر خودحق حاکمیت رکھتے ہیں،یعنی از جانب پروردگار انسان خود مختار ہے؛ لھٰذا ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں مزید وضاحت کردی جائے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next