قانون گذاری کے شرائط اور اسلام میں اس کی اہمیت



کیا یہ فقر وناداری والا انسان اپنے کو خدا سے بے نیاز سمجہے؟ خدا کے مقابلہ میں بے نیازی کا اظھار کرنا شرک ہے، لھٰذا اعتماد بنفس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خدا پر بہی اعتماد نہ رکھا جائے، اور اگر کوئی یہ کہے کہ خدا پر بہی اعتماد نہ کیا جائے، تو یہ قرآن کریم اور اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے، سیکڑوں آیات وروایات اس سلسلہ میں موجود ہیں کہ انسان اپنے کو خدا کے مقابلہ میں اپنے کو ہیچ سمجہے، اور تمام چیزوں کو خدا سے طلب کرے، اور اس بات کا اعتمادبنفس سے کوئی مطلب نہیں ہے،کیونکہ اعتماد بنفس کا مسئلہ انسانوں کے درمیان رابطہ کو بیان کرتا ہے چونکہ کوئی بہی کسی پر کچھ امتیاز نہیں رکھتا۔

لھٰذا اس بات کا جواب کہ اعتماد بنفس اور خدا پر توکل وبھروسہ ایک ساتھ کسیے جمع ہوسکتے ہیں ، یہ ہے کہ اعتماد بنفس کا تعلق انسانوںکے رابطہ سے ہے، کہ ایک دوسرے پر تکیہ نہ کریں اور کوئی بہی دوسروں سے آگے قدم بڑھا کر نہ رکہیں نہ یہ کہ خدا پر بہی اعتماد نہ رکہے.اسی طرح سیاسی مسائل میں ، انسان کی فردی حاکمیت کا مسئلہ ہے اور حاکمیت ملّی میں بہی اسی طرح ہے، حاکمیت ملّی یعنی ھر ملت خود اپنے پیروں پر کھڑی ہو اور دوسروں کو بہی یہ حق نہیں ہے کہ ان پر حکمرانی کریں. حاکمیت انسان پر خود یعنی کوئی بہی انسان خودبخود اپنے کو دوسروں کا حاکم تصور نہ کرے، نہ یہ کہ خداوندعالم بہی کسی پر حاکمیت نہیں رکھتا، دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ فردی اور ملّی حاکمیت خدا کی حاکمیت کے طول (بعد) میں ہے یعنی اصل حاکمیت خدا سے مخصوص ہے ، اور اس کے طول میں خدا نے جن کو حاکمیت کی اجازت دی ہے ،یعنی خدا نے حکومت کرنے کا جو دائرہ جن کے لئے بیان کیا ہے وہ لوگ صرف اسی دائرہ اور حد کے اندر حکومت کرنے کا حق رکھتے ہیں لھٰذا اگر خدا کی طرف سے اجازت نہ ہو تو پھر کسی انسان کو حق حاکمیت نہیں ہے۔

 

حوالہ

(1)سورہ ٴ الرحمن آیت 7،8.

(2)سورہٴ یونس آیت 5۹

(3)صحیفہ نور ج۹ص 251

(4)سورہٴ فاطر آیت 15

(5)سورہ یونس آیت 107

   



back 1 2 3 4 5 6 7 8