دنیا کو حقیر جاننا اور آخرت کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھنا



          اس آیہٴ کریمہ Ú©ÛŒ تفسیر میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

          ”تکبر اور خود خواہی میں مبتلا ہو کر اس Ù†Û’ اپنی خلقت پر آدم پر فخر کرتے ہوئے اپنی اصلیت (کہ آگ سے پیدا کیا گیا تھا) Ú©Û’ بارے میں تعصب سے کام لیا اور کھلم کھلا خدا وند متعال Ú©ÛŒ نافرمانی کی۔ لہٰذا یہ دشمن خدا، متعصبوں اور باغیوں کا پیشوا ہے جس Ù†Û’ تعصب Ú©ÛŒ بنیاد ڈالی ہے اور خدائے متعال سے عظمت Ùˆ بزرگی کا مقام حاصل کرنے Ú©Û’ لئے (جو خدا سے مخصوص ہے) Ù„Ú‘ پڑا اور عظمت Ùˆ سربلندی ( جو اس کا حق نہیں تھا) زیب تن کر Ú©Û’ تواضع وانکساری Ú©Û’ لباس Ú©Ùˆ تن سے جدا کیا۔   Û±

مزید اس کے ضمن میں فرماتے ہیں:

          ”شیطان Ú©Û’ ساتھ خدا وند عالم کا یہ رویہ ( سخت مواخذہ) لوگوں Ú©Û’ لئے باعث عبرت ہے کہ اتنی زیادہ عبادت Ùˆ بندگی اور اس قدر سعی Ùˆ کوشش سب Ú©Ùˆ خدا وند عالم Ù†Û’ برباد کر دیا۔ اس Ú©Û’ باوجود کہ اس Ù†Û’ Ú†Ú¾ ہزار سال تک خدائے متعال Ú©ÛŒ عبادت کی، معلوم نہیں یہ سال دنیوی سال ہیں یا آخرت Ú©Û’Û” یہ سب Ú©Ú†Ú¾ اس Ú©Û’ ایک لمحہ Ú©Û’ تکبر Ú©Û’ نتیجہ میں ہوا۔ لہٰذا شیطان Ú©Û’ بعد کون تکبر Ùˆ سرکشی Ú©Û’ نتیجہ میں خدا Ú©Û’ عذاب سے بچ سکتا ہے؟ خداوندعالم ہر گز اپنے کسی بندہ Ú©Ùˆ بہشت میں داخل نہیں کرے گا جو اس گناہ میں مرتکب ہو گا جس Ú©Û’ جرم میں اس Ù†Û’ اپنے فرشتہ Ú©Ùˆ بہشت سے نکالاہے۔ بیشک خدا کا Ø­Ú©Ù… Ùˆ فرمان اہل آسمان اور اہل زمین Ú©Û’ لئے یکساں ہے۔“

          اس نکتہ کا ذکر ضروری ہے کہ خشوع Ú©Û’ ختم ہونے Ú©ÛŒ علت اور قساوت قلب نیز امانت میں خیانت کا سبب دنیا سے وابستگی ہے۔ دنیا سے وابستگی خضوع، خشوع اور گریہ Ùˆ زاری Ú©Ùˆ انسان سے سلب کرتی ہے، یہ دنیا سے وابستگی کا نتیجہ ہے کہ انسان شروع میں مشکوک کا موں میں ملوث ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ سر انجام محرمات میں آلودہ ہو کر گناہان کبیرہ کا اصرار کرنے لگا ہے۔ لہذا حالت خشوع Ú©Û’ تحفظ Ú©Û’ لئے دنیا سے وابستگی اور اسے ہدف Ùˆ مقصد قرار دینے سے اجتناب کرنا چاہیے اور مبہم کاموں اور محرمات سے دوری اختیار کرنی چاہیے۔

          اگر ہم مشاہدہ کریں کہ معاشرے سے اقدار اور کمالات رفتہ رفتہ ختم ہو کر ان Ú©ÛŒ جگہ اجتماعی مفاسدلے رہے ہیں، تو ہمیں اس کا سبب مادیات Ú©ÛŒ طرف مائل ہونے میں تلاش کرنا چاہیے۔ یہ وابستگی

---------------------------------------------------

نہج بلاغہ ترجمہ فیض الاسلام ،خطبہ ۲۳۴، ص/ ۷۷۶

اورمیلان ہر گناہ کو انجام دینے کا موقع فراہم کرتے ہےں۔ انسان گناہ کا مرتکب ہونے پر غمگین نہیں ہوتا لیکن اگر اسے کوئی دنیوی نقصان پہنچے، تھوڑے سے پیسے اس کے گم ہو جائیں تو غمگین ہوتا ہے۔ وہ ٹیکس دینے سے گھبراتا ہے یہ دنیا سے وابستگی اور محبت کی وجہ سے ہے۔ اگر کوئی آخرت سے وابستگی رکھتا ہے اور اسے اپنا مقصد قرار دیتا ہے، تو وہ ہر چیز سے اپنی آخرت کے لئے استفادہ کرتا ہے۔ اگر پیسے والا ہے تو وہ پیسے سے اپنی آخرت درست کرتا ہے۔ اگر مال دار نہیں ہے تو صبرو تحمل کے ذریعہ اپنی آخرت کے لئے ذخیرہ اکٹھاکرتا ہے۔ اگر مال دار ہے تو وہ راہ خدا میں اسے انفاق کرتا ہے۔ اگر مال دار نہیں ہے تو دوسری صورت میں محتاجوں کی مدد کرتا ہے۔

          جب انسان Ú©ÛŒ وابستگی دنیا سے بڑھ جاتی ہے تو پہلے حتی الا مکان مباحات سے استفادہ کرتا ہے اور اگر اس سے نہیں ہو سکا تو پھر مشکوک چیزوں Ú©ÛŒ طرف رخ کرتا ہےا اور کوشش کرتا ہے کہ مراجع Ú©Û’ فتوؤں کا سہارا Ù„Û’ کر ان Ú©ÛŒ توجیہ کرے، آج سود Ú©Ùˆ جائز قرار دیتا ہے Ú©Ù„ قطعی Ùˆ یقینی حرام تک ہاتھ بڑھاجائے گا اور اس کا کام یہاں تک پہنچتا ہے کہ چاہے جتنا بڑا، گناہ ہو اس Ú©Û’ انجام دینے سے خوف نہیں کھاتا۔ فطری بات ہے کہ ایسا انسان سنگ دل بن جاتا ہے اور وہ خشوع Ú©ÛŒ حالت سے محروم ہوجاتا ہے۔ جب دنیا سے وابستگی پیدا ہوئی، تو لوگوں Ú©Û’ مال میں خیانت کرتا ہے اور اس سے ذاتی استفادہ کرتا ہے۔ پس، قساوت قلب Ú©Û’ گناہ کا سبب مادیات اور حیوانی لذتوں Ú©ÛŒ طرف مائل اور متوجہ ہونا ہے۔ اب اس بیماری Ú©Û’ علاج Ú©Û’ لئے پہلے اس Ú©ÛŒ جڑ Ú©Ùˆ پکڑنا چاہیے دیکھنا چاہیے کہ یہ درخت کیوں خشک ہوگیا ہے، اسے کونسی زہریلی غدا کھلائی گئی ہے جن Ú©Û’ نتیجہ میں یہ خشک ہوا ہے۔ وجود انسان Ú©Û’ درخت Ú©Ùˆ آفت سے محفوظ رکھنے Ú©Û’ لئے صحیح وسالم غذا دینی چاہیے اور اسے شہوانی اور حیوانی خواہشات Ú©ÛŒ پیروی کرنے سے روکنا چاہیے کیونکہ اس کا نتیجہ بے رحمی اور سنگدلی ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next