خدا کی نظرمیں قدرو منزلت کا معیار



<لن تنالوا البر حتی  تنفقوا مما تحبون۔۔۔>(آل عمران/Û¹Û²)

”تم نیکی Ú©ÛŒ منزل تک ہر گز نہیں پہنچ سکتے  جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ خدا میں انفاق نہ کرو۔“

جب انفاق کر نا چاہتے ہو تو نئے نوٹ دینے Ú©ÛŒ کوشش کرو  نہ فرسودہ اور Ù¾Ú¾Ù¹Û’ پرانے نوٹ،کہ یہ امر بھی تمہارے معنوی درجات  میں اضافہ کرتاہے اور تمہاری دنیاسے وابستگی کوبھی Ú©Ù… کرتا ہے اور سبب بنتا ہے کہ تمہارے اعمال اس Ú©Û’ بعد خالص تر بن جائیں لہذا جیسے عرض کر چکا ہوں،طے کر لیں کہ جو Ú©Ú†Ú¾ ہمیں ملا ہے اس کا ایک حصہ دوسروں Ú©Ùˆ دیدیں ،کیا بہتر ہوتااگر ہمیں ان پیسوں Ú©ÛŒ زیادہ ضرورت نہ ہونے Ú©ÛŒ صورت میں،اپنے اطراف میں موجود کسی مقروض شخص Ú©Ùˆ دیدیں ØŒ جس Ú©Û’ گھر میں روزانہطلب گار (قرض دینے والا) آکر اپنے پیسہ کا تقاضا کرتاہے اور وہ پیسے نہ ہونے Ú©ÛŒ وجہ سے شرمندگی سے دوچار ہوتا ہے ایسا کیوں نہ کریں کہ سارا پیسہ اسے دیدیں تا کہ وہ اپنا قرضہ چکادے  ہم تو قرضدار نہیںہیں ØŒ کیا حرج ہے فرض کریں ہم تبلیغیسفر پر نہیں گئے ۔فرض کریں خدا نہ کرے ہمارے گھر میں ہماراکوئی عزیز بیمار ہواوراس Ú©ÛŒ بیمارداری Ú©ÛŒ وجہ سے تبلیغ پرجانا ہمارے نصیب میں نہ ہو ۔اگر کوئی مقروض مسلسل اپنے قرض Ú©Ùˆ ادا کر Ù†Û’ میں تاخیر کرتا ہے اور اس Ú©ÛŒ آبرو خطرے میں Ù¾Ú‘ÛŒ ہے اور وہ جانتاہے کہ اگر تبلیغ پر نہیں گیا تو اپناقرض ادا نہیں کرسکتا ہے،تواسے تبلیغ پر جانے سے نہیں روکنا چاہئے ۔بہر حال قرض اداکرنا ایک واجب تکلیف ہے،کیا حرج ہے تبلیغ پر جائے اور اپنی تبلیغی سر گر میوں Ú©Û’ بدلے میں محترمانہ اور شان روحانیت Ú©ÛŒ رعایت کرتے ہوئے نیز کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے روحانیت Ú©ÛŒ بدنامی ہو،اگر اسے کوئی نذرانہ دیا گیا تو وہ اسے قبول کرلے اگر اسکی نیت یہ ہو کہ تبلیغ پر جائے اگر اسے کوئی نذرانہ دیا گیا تو اس سے اپنا قرض اداکرے گاتو اس Ù†Û’ کوئی خلاف شرع کام انجام نہیں دیا ہے،اگر چہ نفس Ú©Ùˆ جس کمال تک پہنچنا چاہئے تھا نہیں پہنچتاہے۔لیکن اس کام میں بھی اخلاص کا قصد کیا جا سکتاہے ،کیونکہ قرض ادا کرنا واجب ہے اوراگر اس Ú©ÛŒ نیت یہ ہوکہ چونکہ خدائے متعال Ù†Û’ واجب کیاہے کہ قرض Ú©Ùˆ ادا کیاجائے میں راہ خدا Ú©ÛŒ تبلیغ پر جاتا ہوں تاکہ Ú©Ú†Ú¾ پیسے حاصل کروںاور اس سے قرض ادا کروں ،اس طرح اس کاعمل عبادت ہوجائیگا  Û”

بہر صورت ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ دینوی تمایلات کو کم کریں اور مال دنیا کی نسبت بے اعتنائی دکھائیں اور دیکھ لیں کہ ہمارے مولا و مقتدا حضرت علی علیہ السلام ہیں کہ جن کی نظرمیں دنیا کی رعنائیاں کس قدر پست وحقیرتھیں فرماتے ہیں:

(دیکھو اس ذات کی قسم کہ جس نے دانے کو شگافتہ کیا اورذی روح چیزیں پیدا کیں ۔اگر بیعت کرنے والوںکی موجودگی اورمدد کرنےوالوں کے وجود سے مجھ پرحجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہدنہ ہوتاجو اللہ نے علما سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالموںکی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرارسے نہ بیٹھیں ، تو میں خلافت کے اونٹ کی باگ ڈور اسی کی پشتپر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اول کو سیراب کیا تھا۔)

اس کے بعد آپ﷼ نے فرمایا:

”ولاٴلفیتم دنیا کم ہذہ ازہد عندی من عفطة عنز“۱#

”اور تم اپنی دنیاکو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابل اعتناپاتے۔“

دوسری جگہ پرفرمایا ہے:

”واللہ لدنیاکم ھذہ اہون فی عینی من عراق خنزیرمجزوم“  Û²#



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next