خدا کی نظرمیں قدرو منزلت کا معیار



  ثقافتی اور مذہبی پروگراموں میں اخلاص Ú©ÛŒ اہمیت:

اس سلسلہ میں دین Ú©Û’ مبلغین اورمروجین Ú©Ùˆ توجہ کرنی چاہئے کہ تبلیغ اور دینی اورمذہبی پروگراموںکے انعقاد میں نیز ،مذہبی مراکز Ú©ÛŒ تاسیس اور ان امور کیطرف دوسروں کوتشویق کرنے میںان کامحرک اور نیت خالص ہونی چاہئے۔یہ ممکن ہے کہ تبلیغات اوراپنے موعظوںسے دوسروں Ú©ÛŒ صحیح راستہ پر رہنمائی کریںاور انھیں دینی وثقافتی مسائل Ú©ÛŒ طرف جذب کریں اور مسجد تعمیر کرنے اور مذہبی مراکزتاسیس کر Ù†Û’ میں تلاش اورعزم وارادہ کا مظاہرہ کریں اس طرح ثقافتی مسائل Ú©ÛŒ ترویج Ú©Û’ لئے ،اور معاشرے Ú©Û’ ثقافتی پہلوؤں Ú©Ùˆ مقدار Ùˆ کیفیت Ú©Û’ اعتبار سے فروغ دینے Ú©Û’ لئے ماحول ساز گار بنائیں ۔لیکن انھیں یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ ان Ú©ÛŒ یہ سر گر میاں ہمیشہ خودان Ú©Û’ لئے سود مند ثابت ہو Úº Ú¯ÛŒ اور قطعاان سے اخروی اعتبار سے فائدہ اٹھائیںگے ۔وہ سر گرمیاں اس وقت ہمارے لئے مفید ہیں اور ہمارے لئے کمال وبلندی کا سبب ہےجب ہمارا مقصد خدائے متعال ہو۔ہماری فعالیت اور کوشش صرف تر ویج دین Ú©Û’ لئے ہو اور ان سے ہمارے ذاتی اغراض وابستہ نہ ہوں تو اس صورت میں ہمیں ایک عظیم سعادت ملے Ú¯ÛŒ ،لیکن  اگر

--------------------------------

۱۔ کافی ج/ ۵،ص/ ۱۹

ہمارے ذاتی اورمادی اغراض، ہماری فعالیت اورکوشش کاسبب بنے ہوں،تو ہمیں اپنے کام Ú©Û’ بارے میںخدائے متعال سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔پس ہمیں اس نکتہ سے غافل نہیں ہو نا چاہئے اورخیال نہیں کرنا چاہئے کہ جب کسی کام کا بہت اچھا نتیجہ Ù†Ú©Ù„Û’ ØŒ تو ہمارے لئے بھی  مفید ہے اور ہم مغرور ہو جائیں ،بلکہ ہمیںاپنی نیت کوٹٹو لنا چاہئے ،اس صورت میں نہ صرف ہم مغرورنہ ہو ÚºÚ¯Û’ بلکہ ممکن ہے شرمندہ بھی ہو جائیں ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مطلب Ú©Û’ بارے میں فرماتے ہیں:

”یا اباذر!ان اللّٰہ عز وجل یقول: انی لست کلا م الحکیم اتقبل ولکن ہمہ وہواہ ،فان کان ہمہ وہواہ فیما احب وارضی جعلت صمتہ حمدا لی وذکرا ووقاراوان لم یتکلم“

”اے ابوذر!خدائے عزوجل فرماتا ہے:میں دانشمند حکیم کی اس بات کو قبول نہیں کرتا ہوں جووہ زبان پرجاری کرتا ہے ،بلکہ اس کو قبول کرتا ہوں جواس کے دل میں ہے اور وہ اس کا ہدف مقصد ہے۔ اگر اس کا ارادہ وقصدوہ ہو جسے میںچاہتا ہوں اورجس پر راضی ہوں ،تواس کی خاموشی کو بھی اپنے ذکروحمدوثناکے طور پر قبول کرتا ہوں ،اگر چہ اسنے بات نہ کی ہو۔“

جولوگ حکمت آمیز باتوں Ú©Ùˆ سیکھ کرلوگوں Ú©Ùˆ بتاتے ہیں ،ان Ú©ÛŒ لوگوں Ú©ÛŒ طرف سے ستائش وتمجید Ú©ÛŒ جاتی ہے اور لوگ انھیں حسن ظن سے دیکھتے ہیں اور ان Ú©Û’ لئے شائستہ مقام Ú©Û’ قائل ہو جاتے ہیں البتہ انسان کافریضہ یہ ہے کہ دوسروں Ú©Û’ بارے میں حسن ظن رکھے ،لیکن بولنے والے کواپنے بارے میں دیکھنا چاہئے کہ اس Ú©Û’ کام پر کس قدر اطمینان کیا جا سکتا ہے ۔کیا جس وقت اچھی اور نصیحت آموز باتیں کر تا ہے ،تو خدا اسے قبول کرتا ہے اور اسکا تقرب حاصل کرتاہے یا نہیں ؟خدائے متعال Ù†Û’ خوداس سوال کا جواب دیا ہے کہ مجھے حکیمانہ باتوں سے کوئی کام نہیں ہے بلکہ میںاس مقصد Ùˆ نیت Ú©Ùˆ دیکھتا ہوں جو اس بات Ú©Û’ پس پردہ  پوشیدہ ہے ۔میں افراد Ú©Û’ میلا نات اوررحجا نات Ú©Ùˆ دیکھتا ہوں۔ میں یہ دیکھتا ہوں کہ بات کرتے وقت اس کا دل لوگوں Ú©ÛŒ طرف متوجہ ہے تا کہ لوگ اس Ú©Û’ بیان Ú©ÛŒ ستائش کریں اوراس سے خوش ہوں ،یا یہ کہ وہ صرف اپنے فریضہ کودیکھتا ہے اور اس فکر میں ہے کہ اپنے فریضہ پرعمل کرے اوراس Ú©Ùˆ اس سے کوئی سرو کار نہیں کہ لوگ اس Ú©ÛŒ باتوں سے خوش ہوں یا خوش نہ ہوں، حتی اگر اس Ú©ÛŒ باتیں انھیں بری بھی لگتی ہیں جب بھی وہ اپنے فریضہ Ú©Ùˆ انجا Ù… دینے میں کوتاہی نہیں کرتا Û”

پس جب اسکے میلانات اوررحجانات میری مرضی کے مطابق ہوں ،تو میں اسکی خاموشی پر بھی اس کو ذکر اورحمدوثنا کا ثواب بخشتا ہوں ،کیونکہ اس کادل میری طرف متوجہ ہے اوروہ ایسا کام انجام دیناچاہتاہے جو میری مرضی کے مطابق ہے ۔وہ جب میری مرضی کوخاموشی میں دیکھتا ہے تو خاموشی اختیار کرتا ہے،اس لحاظ سے اسکی خاموشی عبادت ہے،اورممکن ہے اس کی یہ خاموشی دوسروں کی عبادتوں سے زیادہ ثواب رکھتی ہو اور اسکی روحی اورمعنوی تکامل ترقی میں زیادہ موٴثر ہو جس کی باتیں اور جس کے کام لوگوں کے لئے ہوںاور اس کادل لوگوں کیطرف متو جہ ہو،وہ کوئی فضیلت وثواب حاصل نہیں کرتاہے۔ اس کاثواب وہی لوگوں کی تعریف وتمجید ہے ،کیو نکہ اس نے خداکے لئے کام ہی نہیں کیا ہے کہ وہ اسےجزا دے ۔

مذکورہ مطالب اور عمل Ú©ÛŒ ہویت وماہیت میں اندورونی محرکات ومیلا نات Ú©Û’ اثرات Ú©ÛŒ شناخت Ú©Û’ پیش نظر اگر ہم Ù†Û’ مشا ہدہ کیاکہ کوئی شخص اپنے فریضہ Ú©Ùˆ تشخیص دینے Ú©Û’ بعد بات کرتا ہے،اگر چہ لوگ اسے پسند بھی نہ کریں ،توہمیں جاننا چاہئے کہ اس کا مقصدو ہدف الہی تھا ،اس لحاظ سے اس کاعمل اور بیان بلند قدروقیمت کا حاملہے ۔لیکن اگر بات کرنے میں لوگوں Ú©Ùˆ مد نظررکھے اور یہ بھی جانتاہو کہ اس بات Ú©Û’ کہنے پرخدائے متعال بھی راضی ہے، لیکن چونکہ اجتماعی شرائط  Ú©Û’ تحت حالات Ú©Û’ نا مساعد ہونے Ú©ÛŒ وجہ سے بات نہیں کر تاہے ،اورڈرتاہے کہ لوگ اس Ú©ÛŒ بات سے ناراض ہو جائیں ،تواس کا انگیزہ Ùˆ ہدف خدائی نہیں ہے اوراس کادل لوگوں Ú©ÛŒ مرضی کا پابند ہے ،اس جہت سے اگر دوسرے مواقع اور فرصتوں میں بھی بات کرے، تواس Ú©ÛŒ باتوں کا کوئی فائدہ اور کوئیقدروقیمت نہیں ہے ،کیونکہ اسکی توجہ لوگوں Ú©ÛŒ طرف ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next