معاد جسمانی اور روحانی



''الثانی انہ بعد ماثبت بحکم العقل والنقل لزوم المعاد ویوم الجزاء وقع البحث فی ان ما ینتقل الیہ الارواح فی القیامة الکبری ویوم الحساب، ہل ہو عین الابدان الدنیویة البالیة العنصریة بشمل شتاتہا وجمع جہاتہا بامرہ تبارک وتعالی کما یقتضیہ الاعتبار حیث ان النفس خالفت او اطاعت وانقادت لما کانت بتلک الجوارح فحسن المجازات وکمال المکافات بان یکون المجازی عین من اطاع او عصی ام لا ،بل تنتقل الی صور مجردة تعلیمیہ ذات امتداد نظیرالقوالب المثالیتہ والصور المارتیہ؟''

الی ان قال:

''ماوقع التصریح بہ فی القرآن الکریم ہوالاول ،کما فی جواب سؤال ابراہیم ں حیث قال:رب ارنی کیف تحیی الموتی قال اولم... حکیم وقولہ تعالی فی جواب (ایحسب الانسان ان لن نجمع عظامہ بلی قادرین علی ان نسوی بنانہ) وقولہ عزشانہ فی جواب سؤال من یحیی العظام وہی رمیم قل یحییہا الذی انشاہا اول مرة وہو بکل خلق علیم وغیر ذلک من الایات۔''

الی ان قال:

''ولکن جماعة من اہل الحکمة المتعارفہ ذہبوا لشبہة عرضت لہم الی الثانی ولابد لنا من حلہا ودفعہا بعون اللہ تعالی۔''

دوم :عقل اور نقل کے حکم کے مطابق معاد کے لازم ہونے اور روز حساب کے ثابتہونے کے بعد ،بحث اس میں ہے کہ جس چیز سے ارواح قیامت اور روز حساب تعلق رکھیں گی بعینہ و بالکل یہی دینوی اجسام ہیں کہ جن کے پراکندہ ہونے کے باوجود انھیںانہی بدنوں کو جمع کیا جائے گا خداوند عالم کے حکم کے مطابق جس طرح عقلائی اعتبارسے بھی ان ہی مطالبکی اقتضاء کرتا ہے اس لئے کہ : خداوند کی مخالفت یا موا فقیت اور اطاعت ان ہی اعضاء اورجوارح نے کی ہے پس بہتر ہے قیامت کے دن مجازات و عقوبت بھی ان ہی اعضاء وجوارح کوہونی چاہیئے اس بیان کے مطابق جزا یا سزا پانے والا وہی اطاعت یانافرمانی کرنے والا ہو یا وہ نہ ہو بلکہ ارواحمجردہ ہوں، اجسام تعلیمی کی صورتوں میں کہ جس میں امتداد بھی موجود ہو جسے مثالی (برزخی)ڈھانچہ یا ان صورتوں اور شکلوں کی طرح جو آئینوں میں منتقل ہوتی ہیں اس کے بعد آپ فرماتے ہیں :

جس چیز کی قرآن کریم تصریح کرتا ہے وہ در حقیقت پہلا قول ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہاکہ اے میرے پروردگار ! تو کیسے مردوں کو زندہ کرے گا وغیرہ ………

اس کے جواب میں خداوند عالم نے فرمایا : کیا تم یقین نہیں رکھتے ہو؟ اسی طرح خدا نے اس کے جواب میں فرمایا: انسان گمان کرتا ہے ہم اس کے بدن کی ہڈیوں کو جمع نہیں کریں گے بلکہ ہم یقینا جمع کریں گے اور ان ہی ہڈیوں کو پہلی حالت میں پلٹانے کی طاقت رکھتے ہیں حالانکہ ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے پور پور کو پہلی حالت پر پلٹا دیں۔

خداوند رب العزت نے اس سوال کے جواب میں کہ (جب ایک شخص خدمت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ میں ایکبوسیدہ ہڈی لیکر آیا اور ہاتھوں میں پیسنے کے بعد کہتا ہے کہ کون ہے جو ان بوسیدہ ہڈیوںکو زندہ کرے گا حالانکہ یہ تو بالکل پراگندہ و متلاشی ہوچکی ہے؟۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ آپ کہہ دیجئے ! ان بوسیدہ ہڈیوں کو وہی زندہ کرے گا جس نے ابتداء میں ان کوخلق کیا ہے اور وہ ہر چیز کے خلق کرنے پر قادر وداناوتوانا ہے ۔ (چاہے کوئی چیزپہلے سے ہو یا نہ ہو ۔ یا کوئی چیز ہو لیکن پراگندہ ہو چکی ہو تو اس چیز کو پہلی صورت میں پلٹا سکتا ہے ) اس طرح قرآنی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس بدن عنصری کومادی کے سا تھ انسان کی بازگشت ہے ۔

لیکن فلاسفہکے ایک گروہ کے یہاں شبہہ ایجاد ہوا ہے، جس کی بنا پر وہ دوسرے قول اور نظریہ کے قائل ہیں ۔ (قیامت کے دن روح کا تعلق مثالی بدن کی شکل میں ہوگا) لہٰذا ضروری ہے کہ ان کے شبہات کو خداوند عالم کی مدد اور استعانت سے حاصل کریں ،اس کے بعد آخوند ملا صدرا کے مسلک کو خلاصہ کے طور پر بیان کرتے ہوئے اس پر انتقاد و تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next