معاد جسمانی اور روحانی



''فانکار المعاد الجسمانی وعود الارواح الی الاجسام الذی یساعدہ العقل السلیم یخالف نص القران بل جمیع الادیان و انکار لما ہو ضروری الاسلام ، اعاذنا اللہ تعالی من زلات الاوہام و تسویلات الشیطان۔''

معاد جسمانی کا انکار اور ارواح کا اجسام میں پلٹنا جس پر عقل بھی مساعدہے اور اس کو مانتی ہے یہ انکار قرآن کریم کے نص کے خلاف ہے بلکہ یوں عرض کروں تمام ادیان کے خلاف ہے اور دین مقدس اسلام کے ضروریات کا ا نکار ہے خداوند عالم ہم کو ایسی وہمی غلطیوں اور لغزشوں سے محفوظ رکھے اور شیطانی افکار اور وسوسوں سے نجات د ے ۔

٢۔ جناب آیة اللہ احمد خوانساری بحث معاد میں فرماتے ہیں پس بیشک جو بدن قیامت کے دن محشور ہوگاوہ یہی مادی و عنصری بدن ہے، چنانچہ یہ مطلب بالکل صراحت کے ساتھ قرآنی آیات و احادیث میں موجود ہے اور کبھی کہاجاتا ہے قیامت کے دن جو بدن محشور ہوگا وہ یہ بدن مادی نہیں ہے بلکہ بدن مثالی ہے جو خداوند عالم کے اذن سے نفس کے ذریعہ وجود میں آیا ہے اور یہ بدن مثالی مختلف ہے اختلاف ملکات نفسانیہ کی بناپر کہ جو دنیا میں حاصل ہوا ہے

اس کے بعد شروع کرتے ہیں شبہوں کو ذکر کرنا اور ان کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔

اس بحث میں کچھ شبہات موجودہیںکہ جو دوسرے قول سے مناسبت رکھتے ہیں ۔ (وہ یہ کہ قیامت میں مثالی بد ن محشور ہونگے ) اس کے بعدشبہوں کو ذکر کرتے ہوئے ان کا جواب دیتے ہیں۔اس کے بعد وہ آیات اور روایات جو معاد کومذکورہمعنی میں ثابت کرتی ہیں ان کو ذکر کرتے ہیں۔

٣۔ مرحوم آیةاللہ مرزا محمد تقی آملی رحمة اللہ علیہ فقیہ وفلسفی ، تعلیقہ شرح منظومہ کے درر الفوائد میں توضیح اور تعلیق کے بعد اس سلسلے میں جس کو مصنف نے اختیار کیا ہے فرماتے ہیں یہ آخری چیز ہے جو کہ اس طریقہ کے بارے میں کہا جاسکتاہے لیکن حقیقت مطلب ومفہوم یہ ہے کہ :

''ہذا غایة ما یمکن ان یقال فی ہذہ الطریقة ولکن الانصاف انہ عین انحصار المعاد بالروحانی لکن بعبارة اخفی فانہ بعد فرض کون شیئیة الشیء بصورتہ وانّ صورة ذات النفس ہو نفسہ وان المادة الدنیویة لمکان عدم مدخلیتھا فی قوام الشیء لایحشر، وان المحشور ہوالنفس ،غایة الامر اما مع انشائہا لبدن مثالی قائم بہا قیاما صدوریاً مجرداًعن المادة ولوازمہا الا المقدار کما فی نفوس المتوسطین من اصحاب الشمال او اصحاب الیمین و اما بدون ذلک ایضاً کما فی المقربین (ولعمری) ان ہذا غیر مطابق مع ما نطق علیہ الشرع المقدس علی صادعہ السلام والتحیةوانا اشہد اللہ وملائکتہ وانبیائہ ورسلہ انی اعتقد فی ہذہ الساعة وہی ساعة الثلاث من یوم الأحد الرابع عشر من شہر شعبان المعظم سنة ١٣٦٨ فی امر المعاد الجسمانی بما نطق بہ القران الکریم واعتقد بہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ والائمة المعصومین صلوات اللّٰہ علیہم اجمعین وعلیہ اطبقت الامة الاسلامیة ...''

یہ آخری چیز ہے جو اس طریقہ وروش کے بارے میں کہی جاسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بات سے معاد کا معاد روحانی میںثابت ہونا منحصر ہے مگر یہ بات نہایت ہی پوشیدہ اورمخفی طور پر کہی گئی ہے بس جب ہم نے فرض کر لیا کہ کسی شے کی ہستی اور وجوداسی صورت میں اور یہ کہ صاحب نفس کی صورت خود اس کا نفس ہے اور یہ کہ دنیوی مادہ کسی شے میں مداخلت نہ رکھنے کی وجہ سے محشور نہیں ہوگااور یہ کہ قیامت کے دن جو چیز محشور ہوگی وہ وہی نفس ہے نہایت امر یا جسم مثالی نفس کے انشاء سے حاصل ہوتا ہیکہ اس بدن مثالی کا قیام ایک قسم کا صدور جو مادہ اور لوازم مادہ سے عاری ہے سوائے مقدار کے ۔چنانچہ یہ مطلب نفوس متوسطہ جیسے اصحاب شمال (جہنمیوں) یا اصحاب یمین (بہشتیوں) میںموجود ہے ۔ یا انشائے نفس کے بغیر ہے جسم مثالی محشور ہوتا ہیجس طرح یہ بات مقربین سے مخصوص ہے، لیکن مجھیاپنی جان کی قسم ہے کہ یہ عقیدہ شریعت مقدسہ کے مطابق نہیں ہے کہ اس شریعت کے مبلغ اور مبین پر (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ) درود وسلام ہو،اور میںاللہ اور اس کے ملائکہ اور انبیاء و مرسلین کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ اس وقت ١٤شعبان المعظم ١٣٦٨ھ اتوار کے دن تین بجے ، اس معاد جسمانی پر میرا عقیدہ ہے کہ جس کو قرآن مجید اور حضور اکرم ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ اور ائمہ معصومین (ع) نیبیان فرمایا ہے اور اس بیان پر میرا عقیدہ استوارو قائم ہے اور اس پر تمام امت اسلامی کا اتفاق ہے ان تین اقوال میں ملاصدرا کے نظریہ اور عقیدہ کو شدت سے رد کیا گیا ہے ۔ اور وہی معاد جسمانی کا عقیدہ تمام علماء وفقہاء اور محدثین کی نظر میں مورد قبول واقع ہوا ہے ۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8