کیا امام حسین علیہ السلام نے اپنے اس جہاد میں امر بالمعروف کی شرائط کی طرف توجہ نہیں فرمائی



 

جیساکہ ہم نے اس کتاب کے پہلے حصے میں ایک سوال پیش کیا تھا۔ اس طرح یہاں پر بھی اہم سوال اٹھاتے ہیں کہ شیعہ فقہا اور دانشمند امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۲ کو اس کے ساتھ مقید سمجھتے ہیں کہ جو شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام دے رہا ہو اسے کوئی خطرہ بھی درپیش نہ ہو لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی اس جدوجہد میں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے انجام دے رہے تھے۔

مذکورہ شرط کی طرف توجہ نہیں دی گئی اور امام نے اس ہدف اور اس مقصد تک پہنچنے کے لئے بہت بڑے خطرے کو مول لیا اور اپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے اپنی جان اور اپنے اعزہ و اقرباء کی جانیں قربان کیں۔ اپنے فرزندوں اور اپنے اہل خانہ کی اسیری کو بھی قبول کیا اور سخت ترین مصائب بھی برداشت کیے۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ فقہی احکام صرف رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی گفتار، ان کے کردار اور آئمہ علیہم السلام کے کردار اور ان کے اقوال کا دوسرا نام ہے۔ جواب: مذکورہ شرط ایک عمومی اور کھلی شرط ہے جو خاص اور استناعی موارد میں قابل ملاحظہ نہیں ہوتی۔ اس مطلب کی مزید وضاحت کے لئے مندرجہ ذیل دو موضوع کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کرتے ہیں۔ ۱۔ گناہگار شخص کی موقعیت۔

 Û²Û” امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے Ú©ÛŒ موقعیت۔ اول: اگر گناہ اور معصیت کسی ایسے شخص سے سرزد ہو جو اجتماعی اور معاشرتی یعنی سیاسی اعتبار سے اس حیثیت کا عامل ہوکر اس کا عمل معاشرہ Ú©Û’ دوسرے افراد Ú©Û’ لئے نمونہ عمل قرار پاتا ہو۔ چنناچہ اس کا یہ گناہ کرنا، یہ برا فعل انجام دینا معاشرہ میں ایک بدعت Ú©Û’ عنوان سے مروج ہو جائے گا۔ اس صورت میں ہر متعاہد مسلمان کا خاموش رہنا، ہر متعاہد اور جاننے والے مسلمان کا خاموش رہنا گناہ ہے۔ ایسا گناہ جو ناقابل معافی ہے اور یہ خاموشی ایک ایسا گناہ ہے جو ناقابل بخشش ہے لہٰذا جب کسی مسلمان Ú©Ùˆ یہ علم ہو کہ ایک شخص معاشرہ میں ایک گناہ Ú©Û’ انجام دینے Ú©Û’ ذریعہ ایک بدعت پھیلا رہا ہے اس پر واجب ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے چاہے اس Ú©Û’ نتیجے میں اسے مالی اور جانی نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا Ù¾Ú‘Û’Û” لہٰذا اسے اپنے تمام وسائل بروئے کار لا کر اپنے تمام نقصانات اور مصیبتوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے اسے اس گناہگار شخص کا مقابلہ کرنا چاہیئے اور اسے اس گناہ سے ہر ممکن طریقہ سے باز رکھنا چاہیئے اور اگر اس Ú©Û’ لئے ایسا ممکن نہ ہو تو حد عقل زبانی طور پر اپنی مخالفت کا اظہار کرکے لوگوں Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ برے عمل سے آگاہ کرنا چاہیئے۔

 Ú†Ù†Ø§Ù†Ú†Û یہاں پر گفتار اور زبانی مخالفت Ú©Û’ موثر ہونے یا نہ ہونے Ú©ÛŒ طرف کوئی توجہ نہ دینی چاہیئے۔ چنانچہ امیر الموٴمنین Ú©Û’ خاص الخاص پیروکاروں Ú©ÛŒ زندگی ہمارے لئے نمونہٴ عمل ہے کہ انہوں Ù†Û’ اپنے زمانے Ú©Û’ ظالم Ùˆ جابر حکمرانوں اور بدعت گزاروں Ú©Û’ سامنے کس طرح سیسہ پلائی ہوئی دیواروں Ú©ÛŒ طرح ثابت قدم رہ کر اسلام Ú©ÛŒ حفاطت کی۔ چنانچہ میثم تمار، حجر بن عدی، ابوذر غفاری اور ایسے ہزاروں انقلابی شیعہ اور مکتب تشیع Ú©Û’ انقلابی پیروکار نظر آتے ہیں جنہوں Ù†Û’ اسلامی احکام میں ذرہ سی تبدیلی Ú©Ùˆ بھی گوارہ نہیں کیا اور اسلامی احکام Ú©ÛŒ حفاظت Ú©ÛŒ خاطر اپنی جان Ùˆ مال، اپنے اعزا Ùˆ اقرباء اور اپنے عزیز فرزند تک قربان کر دیئے۔ دوم: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے Ú©ÛŒ شخصیت کا لحاظ امر Ùˆ نہی کرنے والے Ú©Ùˆ یہ نکتہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ جو لوگ، جو شخصتیں احکام الٰہی Ú©ÛŒ بنیاد رکھنے والی ہیں یعنی پیغمبر اور وہ ہستیاں جو ان احکام خداوندی Ú©ÛŒ حفاظت اور بقا کا اصل سبب ہیں جو حفاظت کرنے والی ہیں یعنی آئمہ ہدیٰ علیہم السلام اور مذہبی پیشوا اور ان Ú©Û’ جانشین۔ یہ شخصیتیں الٰہی احکام اور آسمانی قوانین Ú©ÛŒ حفاظت Ú©Û’ ضمن میں خصوصی ذمہ داریوں Ú©ÛŒ حامل ہوتی ہیں لہٰا انپر مذکورہ شرط عائد نہیں ہوتی۔ باالفاظ دیگر سوال میں جو فقہی Ø­Ú©Ù… مورد بحث لایا گیا ہے وہ مجھ سے یا آپ سے مربوط ہے لیکن انبیاء اور اولیاء اور اسلام Ú©Û’ حقیقی نگہبان ہم سے زیادہ سنگین ذمہ داریوں Ú©Û’ حامل ہوتے ہیں اور اگر ہر پیغمبر اور ہر امام یا مذہبی پیشوا Ú©Ùˆ اپنا فریضہ انجام دینے میں اپنی شرائط پر عمل کرنا Ù¾Ú‘Û’ جو ہم سب لوگوں Ú©Û’ لئے عائد Ú©ÛŒ گئیں ہیں تو پیغمبروں اور آئمہ ہدیٰ علیہم السلام اور ان Ú©Û’ مخالفین میں وہ جنگیں اور اوہ مخالفتیں رونما نہ ہوتی اور نہ ہی ان آئمہ ہدیٰ اور پیغمبروں Ú©Û’ احکام اور ان Ú©ÛŒ تعلیمات کا روئے زمین پر اثر دکھائی دیتا۔ حضرت ابراہیمں جب بت پرستی Ú©Û’ خلاف جدوجہد Ú©Û’ لئے اٹھ Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہوتے ہیں اور اپنے زمانے Ú©Û’ سب سے بڑے طاغوت اور اس Ú©Û’ عظیم ترین لشکر سے خوفزدہ ہوئے بغیر بتوں Ú©Ùˆ توڑ دیتے ہیں۔

 Ø§Ø³ وقت ان Ú©Û’ دل میں کسی قسم کا ڈر اور وہم موجود نہیں تھا۔ اسی طرح حضرت یحییٰں جو خود تو صاحب رسالت اور شریعت نہ تھے بلکہ گذشتہ شریعتوں Ú©ÛŒ حفاظت کا ذمہ خدا Ú©ÛŒ طرف سے انہیں سونپا گیا تھا۔ اپنے زمانے Ú©Û’ طاغوت Ú©Û’ ایک عمل یعنی اس Ú©Û’ ایک غیر شرعی شادی Ú©ÛŒ مخالفت میں اٹھ Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہونے میں اور یہاں تک اس Ú©ÛŒ مخالفت کرتے ہیں کہ انجام کار آپ کا کٹا ہوا سر ایک طشت میں رکھ کر اس طاغوت Ú©Û’ سامنے لایا جاتا ہے۔ اور یہی راز پنہاں تھا امام حسین Ú©Û’ ان جملوں میں جو آپ Ù†Û’ طول سفر میں مدینہ سے Ù„Û’ کر کربلا تک کئی مرتبہ ارشاد فرمائے۔ ﴿ان رأس یحیی بن زکریا أھدی الی بغی من بغایا بنی اسرائیل۔۔۔﴾ کیونکہ شریعت Ú©Û’ قالفہ سالاروں اور نبوت Ùˆ رسالت Ú©Û’ پاسداروں کا وظیفہ سب سے الگ، ان Ú©ÛŒ ذمہ داری سب سے جدا ہوتی ہے۔