شبہ آکل و ماکول



۲۔یہ صحیح ہے کہ انسانی شخصیت کی بنیاد روح سے ہوتی ہے لیکن توجہ رہنا چاہئے کہ روح کی پرورش جسم کے ساتھ ہوتی ہے اور جسم کے ساتھ ہی روح تکامل و ارتقا کی منزل طے کرتی ہے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں، اسی لئے ایک جیسے دو جسم تمام جہات سے ایک دوسرے سے شباہت نہیں رکھتے، دو روحیں بھی تمام پہلووٴں سے ایک دوسرے سے مشابہ نہیں ہوتی ہیں۔

اسی بنا پر کوئی روح اس جسم کی مکمل اور وسیع مفاہمت اور کارکردگی کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی جس کے ساتھ اس نے پرورش پائی ہو اور تکامل و ارتقاء حاصل کیا ہو لہٰذا ضروری ہے کہ قیامت میں وہی سابق جسم لوٹ آئے، تاکہ اس سے وابستہ ہوکر روح عالی ترین مرحلے میں نئے سرے سے اپنی فعالیت کا آغاز کرے اور اپنے انجام دئے ہوئے اعمال کے نتائج سے فیضیاب ہو۔

۳۔ انسانی بدن کا ہر روز اس کے تمام جسمانی مشخصات کا حامل ہوتا ہے یعنی اگر واقعاً ہم بدن کے ہر خلیے کی پرورش کرکے اُسے ایک مکمل انسان بنالیں تو وہ انسان اس شخص کے تمام صفات کا حامل ہوگا جس کا جز لیا گیا تھا ۔ (یہ امر بھی قابل غور رہے)

پہلے دن انسان ایک خلیے سے زیادہ نہ تھا پہلے نطفہ ،خلیہ تھا، اسی میں انسان کی تمام صفات موجود تھیں، تدریجاً وہ تقسیم ہوا اور دو خلیے بن گئے پھر دو سے چار ہوئے اور رفتہ رفتہ انسانی بدن کے تمام خلیے وجود میں آگئے اسی بنا پر انسانی جسم کے تمام خلیے پہلے خلیے کی طرح ہیں اگر ان کی بھی پہلے خلیے کی طرح پرورش ہو تو ہر ایک ہر لحاظ سے ایک پورا انسان ہوگا جو بعینہ پہلے خلیے سے وجود میں آنے والے انسان کی سی صفات کا حامل ہوگا۔

ان مذکو رہ تین مقدمات کو سامنے رکھتے ہوئے اب ہم اصل اعتراض کا جواب پیش کرتے ہیں:

قرآنی آیات صا ف طور پرکہتی ہیں کہ آخری ذرات جو موت کے وقت انسانی بدن میں ہوتے ہیں قیامت کے دن انسان انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔(1)

اس بنا پر اگر کسی دوسرے انسان نے کسی کا گوشت کھایا ہو تووہ اجزا اس کے بدن سے خارج ہوکر اصلی شخص کے بدن میں پلٹ آئیں گے، اب یہاں پر یہ سوال رہ جاتا ہے کہ پھر دوسرے کا بدن تو ضرور ناقص رہ جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ناقص نہیں ہوگا، بلکہ چھوٹا ہوجائے گا کیونکہ اس کے اجزا بدن سارے جسم میں پھیلے ہوئے ہیں اب جب وہ اس سے لے لئے جائیں گے تو اس کی نسبت دوسرا بدن مجموعی طور پر لاغر اور چھوٹا ہوجائے گا، مثال کے طور پرایک انسان کا وزن ساٹھ کلو ہے اس میں سے چالیس کلو دوسرے کے بدن کا حصہ لے لیا گیا تو باقی بیس کلو کا چھوٹا سا بدن رہ جائے گا۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کوئی مشکل تو پیدا نہیں ہوگی؟ جواب : یقینا کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ یہ چھوٹا سا بدن بلا کمی و زیادتی دوسرے شخص کی تمام صفات کا حامل ہے، روز قیامت ایک چھوٹے بچے کی طرح اس کی پرورش ہوگی اور وہ بڑا ہوکر مکمل انسان کی شکل میں محشور ہوگا، حشر و نشر کے موقع پر ایسی پرورش و تکامل اور ارتقاء میں عقلی اور نقلی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

یہ پرورش محشور ہوتے وقت فوری ہوگی یا تدریجی؟ یہ ہمارے لئے واضح نہیں ہے لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ جو  بھی صورت ہو اس سے کوئی اعتراض پیدا نہیں ہوسکتا، اور دونوں صورتوں میں مسئلہ حل ہے۔

                              

(1) ان آیات کا مطالعہ کیجئے کہ جن میں فرمایا گیا ہے کہ لوگ اپنی قبروں سے زندہ اٹھیں گے․

اب یہاں پر ایک یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اگر کسی شخص کا سارا جسم دوسرے شخص کے اجزا سے تشکیل پایا ہو تو اس صورت میں کیا ہوگا؟

اس سوال کا جواب بھی واضح ہے کہ اصولی طور پر ایسا ہونا محال ہے کیونکہ مسئلہ آکل و ماکول کی بنیاد یہ ہے کہ ایک بدن پہلے موجود ہو اور وہ دوسرے بدن سے کھائے اور یوں پرورش پائے، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی بدن کے تمام اجزا دوسرے بدن سے تشکیل پائیں ، پہلے ایک بدن فرض کرنا ہوگا جو دوسرے بدن کو کھائے، اس طرح دوسرے بدن کا جز بنے گا نہ کل۔ (غور کیجئے )

ہمارے بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایسے بدن سے معادِ جسمانی کے مسئلہ پر کوئی اعتراض پیدا نہیں ہوتا اور جن آیات میں اس مفہوم کی صراحت کی گئی ہے ان کی کوئی توجیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔(1)

 

(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۲، صفحہ ۲۲۳․

 



back 1 2