قدرت اور عدالت اھل سنت اور اھل تشیع کے نزدیک (1)



وہ چیز جو اس بحث میں قابل اھمیت ھے، امام جمعہ اور جماعت کا عادل ھونا ھے۔ اس لئے کہ حاکم کے عادل ھونے کا مسئلہ خود ان لوگوں کے نزدیک ایک اختلافی مسئلہ ھے۔ لیکن اب دیکھنا تو یہ ھے کہ یہ اختلاف کن نتائج کو اپنے ھمراہ لئے ھے؟

اس بحث کو شروع کرنے سے پھلے ایک نکتہ کے سلسلہ میں یاد دھانی نھایت ضروری ھے اور وہ نکتہ یہ ھے کہ صدر اسلام میں نماز جماعت اور نماز جمعہ کو کیا حیثیت اور مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ اس دور میں سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے نماز جمعہ و جماعت آج سے کھیں زیادہ قابل اھمیت تھی۔ یہ دونوں اور مخصوصاً نماز جمعہ اسلامی ھونے کا راز، اس کے اتحاد اور آخرکار معاشرہ میں ثبات و امنیت کی علامت تھی۔ اس میں شریک ھونے والوں کے افکار و عقیدہ کی سلامتی اور تمام مسلمانوں کے اجماع اور اتفاق کی بناپر عدم انحراف کی پھچان تھی۔[12]یعنی اس بات کی علامت تھا کہ سماج اور معاشرہ حاکم وقت کے فرمان کو قبول کرتا ھے اور اس کے سامنے تسلیم ھے۔ اسی نماز کے ذریعہ حکام، سلاطین اور خلفا کو قانونی حیثیت کو حاصل کرلیتے تھے اور ان کی قدرت اور حیثیت کو استحکام اور پختگی حاصل ھوتی تھی۔

اس دور میں شھروں کی وسعتیں آج کی طرح نہ تھیں، بلکہ ایک چھوٹا سا شھر ھوا کرتا تھا اور اس میں مختصر سی آبادی ھوتی تھی۔ اسی وجہ سے اس شھر کے رھنے والے تمام لوگ خاص طور سے مرد حضرات نماز جماعت میں شرکت کو ضروری سمجھتے تھے۔ بعض مواقع پر نماز میں شرکت کو واجب امر کی حیثیت رکھتی تھی۔[13]نماز جماعت کو اھل سنت کے بعض فقھا اور نماز جمعہ کو تمام فقھا واجب سمجھتے ھیں۔ مذھب امامیہ کے فقھا کے نزدیک بھی جبکہ امام(علیہ السلام) موجود ھوں، نماز جمعہ میں شرکت واجب ھے۔ بلکہ بعض فقھائے امامیہ امام معصوم کی غیبت میں بھی اگر اس کے تمام شرائط پورے ھورھے ھوں تو اس کے قائم کو واجب قرار دیتے ھیں، یھی وہ اسباب ھیں، جس کی وجہ سے یہ دونوں نمازیں فطری طورپر حددرجہ سیاسی اھمیت کی حامل ھوگئیں اس حدتک کہ یہ اسلام کی پھچان اور سماجی اتحاد کا باعث ھوگئیں۔[14]

مذکورہ بالا نکات اور اس کی حساسیت پر توجہ دیتے ھوئے ایسی صورت میں معاشرہ کے برجستہ ترین افراد کے علاوہ خواہ ظاھری اعتبار سے افضل کیوں نہ ھوں، ایسی نماز کی امامت کو کس فرد کے سپرد کیا جاسکتا ھے۔ ایسی نماز کی امامت کو جو موٴمنین کی جماعت کا آئینہ دار اور معاشرہ کی وحدت کا رمز نیز اس کے ثبات کا موجب ھے، ایسے فرد کے علاوہ ان امور کو کسی اور کے حوالہ کرنا معنی نھیں رکھتا تھا عوام بھی اس کے علاوہ کوئی اور توقع نھیں رکھتے تھے۔ اس سے قطع نظر فقھی معیار بھی اسی مطلب کی تائید اور حمایت کرتے تھے۔ بلکہ اس مقام پر یہ کھنا بھتر ھے کہ عوام الناس نماز جمعہ و جماعت اور اس کی امامت ظواھر شریعت کے موافق اور مطابق جانتی ھے۔[15]شارع برجستہ ترین افراد کو اس عھدہ کو دینے کا خواھاں تھا اگرچہ بعد میں سیاسی اور اجتماعی مجبوریوں اور ناجائز دباوٴ کی وجہ سے برجستگی اور ممتاز ھونے کا مفھوم اور مصداق بدل دیا گیا۔

آنحضر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ت کے دور میں ان دو(جمعہ و جماعت) نمازوں کی امامت خود مدینہ میں اور دوسرے علاقو میاا جھاں پر آپ موجود رھے تھے میں آپ کے ذمہ تھی اور آپ کی غیبت میں وہ فرد ان دو نمازوں کی جماعت کا عھدہ دار ھوتا تھا جسے آنحضر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ت نے نمائندہ، جانشین، امیر اور حاکم کے عنوان سے معین فرمایا تھا۔ جب آپ کی وفات ھوگئی تو ان دو نمازوں کی امامت خلیفہ اول کے ذمہ تھی نیز اس خلافت کے ابتدائی ایام میں ان دونمازوں نے اس خلافت کو مستحکم اور قبولیت اور ثبات بخشنے میں بھت اھم کردار ادا کیا تھا۔[16] یہ روش خلفائے راشدین کی خلافت کے آخر تک بر قرار رھی اور جب امویوں کا دور آیا تو بھی اس میں کوئی تبدیلی واقع نھیں ھوئی۔[17]

مثال کے طورپر محقق کرکی نماز جمعہ قائم کرنے یا امام جمعہ کے نصب ھونے کے لئے امام معصوم یا نائب خاص یا نائب عام کی اجازت کو لازم قرار دیتے ھیں، آپ فرماتے ھیں:۔۔۔ اس مسئلہ میں اجماع سے پھلے مسلمانوں کا اتفاق ھے کہ پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنے دور میں ائمہ جماعت اور قضات کو معین فرماتے تھے۔ اسی روش کو آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلفا نے جاری رکھا لہٰذا کسی کو یہ حق نھیں بنتا کہ وہ امام یا نائب امام کی اجازت کے بغیر قاضی بن جائے اور اسی طرح سے یہ بھی جائز نھیں ھے کہ اپنے آپ کو امام جمعہ قرار دے لے۔ اور یہ قیاس نھیں ھے، بلکہ یہ ایک دائمی استدلال ھے اور اس کی مخالفت اجماع کی خلاف ورزی ھے۔[18]

اور پدرسن کچھ اس طرح نقل کرتا ھے:

”اسلام کی ابتدا ھی سے نماز کی امامت حاکم کے ھی ھاتھ میں تھی۔ وھی جنگ میں سپہ سالار حکومت کا رئیس، تمام نمازوں میں امام جماعت ھوا کرتا تھا۔ اسی طرح دوسرے شھروں میں منصوب والیوں کی روش تھی کہ وہ خود نمازوں کی امامت اور خراج لیا کرتے تھے۔ نماز کی امامت اور مخصوصا نماز جمعہ کی امامت اور اسکے خطبہ دنیا حاکم کے ذمہ ھوتا تھا۔ اس کے نہ ھونے کی صورت میں فوج کا کمانڈر اس کے کاموں کا عھدہ دار ھوا کرتا تھا ۔لیکن یہ روش عباسیوں کے دور میں بدل گئی اور اس کے بعد نمازوں کی سلسلہ وار امامت حاکم کے ھاتھ میں نھیں رھی۔“[19]

جو روش خلفا راشدین کے دور میں تھی وہ بھت زیادہ مشکل ساز نھیں تھی۔ پھلے والے دوخلیفہ اور ان کے منصوبین شرع کے ظاھری احکام کی رعایت کرتے تھے۔ اگرچہ عثمان کے دور میں مخصوصا نصف دوم میں، حالت بد ل گئی اور ولید بن عقبہ جیسے افراد والی بنادئے گئے، کوفہ میں منصوب والی شراب کے نشہ میں نماز کے لئے کھڑا ھو گیا اور نماز صبح کو دو رکعت کے بدلے چار رکعت پڑھ دیا اور شراب نوشی میں افراط کی وجہ سے وھیں مسجد کے محراب میںقے کر کے آلودہ کردیا[20] لیکن یہ موارد(حوادث) بھت زیادہ ایسے نھیں تھے کہ جنھیں نظر انداز کیا جاسکے اس دور کے بعد امام علی(علیہ السلام) کا دور تو مکمل آشکار ھے اور اساسی طور پر اس لحاظ سے اس دور میں کوئی مشکل نھیں تھی اور آپ کے زمانے میں ایسی مشکلات ھو بھی نھیں سکتی تھیں۔

 Ø¨Ù„کہ یہ مشکلات امویوں Ú©Û’ دور سے شروع ھوئیں اور روز بروز سنجیدہ Ú¾Ùˆ تی گئیںاور ایک لا ینحل مشکل Ú©ÛŒ صورت اختیار کرلی اور انھیں واقعات Ú©Û’ ساتھ ساتھ عدالت ِامام جمعہ Ùˆ جماعت واقعیت اور ضرورت Ú©Û’ زیر اثر قرار پاگئی اور۔ وقت Ú©ÛŒ مصلحتوںکا شکار ھوگئی اور اس بعد اس Ú©ÛŒ مختلف تفسرین اور عذر اشیاں ھونے لگتیں اور نوبت یھاں تک Ù¾Ú¾Ù†Ú†ÛŒ کہ اآھستہ آھستہ تنزلی پر گامزن Ú¾Ùˆ گئی کہ اصولاً عدالت Ú©Û’ بارے میں غفلت برتی گئی اور بعد میں سے پوری طرح بھلادیا گیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next