امامت قرأن و حديث کی روشنی ميں



”انا یا نبي اللّٰہ اٴکون وزیرک علیہ ، فقال (ص) ان ہذا اخي ووصیي وخلیفتي فیکم، فاسمعوا لہ واطیعوا“

(یا رسول اللہ میں حاضر هوں اور میں آپ کا وزیر هوں، تب رسول اللہ نے فرمایا:

 ÛŒÛ میرے بھائی، میرے وصی اور تمھارے درمیان میرے خلیفہ ھیں ان Ú©ÛŒ باتوں Ú©Ùˆ سنو اور ان Ú©ÛŒ اطاعت کرو) یہ سن کر سب لوگ جناب ابو طالب Ú©Ùˆ یہ کہہ کر ہنستے هوئے Ú†Ù„Û’ گئے:

”اے ابو طالب تم کو حکم دیا گیا ھے کہ اپنے بیٹے کی باتوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرو“[32]

قارئین کرام !   یہ حدیث اپنے ضمن میں حضرت علی علیہ السلام Ú©Û’ لئے تین صفات Ú©ÛŒ حامل Ú¾Û’:

۱۔وزیرهونا۔

۲۔وصی هونا۔

۳۔خلیفہ هونا۔

اب ھم یہ سوال کرتے ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے حضرت علی علیہ السلام کو کس لئے یہ صفات عطا کئے اور کسی دوسرے کو ان صفات سے کیوں نھیں نوزا؟ اور کیوں آپ نے اس کام کے لئے بعثت کے بعد پھلے جلسہ کا انتخاب کیا؟

اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلمکو اس کام میں اپنے لئے ایک مددگار Ú©ÛŒ ضرورت تھی تو وزارت کافی تھی لیکن ان Ú©Û’ ساتھ خلافت ووصایت کا کیوں اضافہ کیا؟ اور اپنے رشتہ داروں Ú©Ùˆ ڈرانے اور ان Ú©Ùˆ اسلام Ú©ÛŒ دعوت دینے اور وصایت وخلافت میں کیا ربط Ú¾Û’ØŸ  ان سوالوں Ú©Û’ جوابات دینے Ú©Û’ لئے Ú¾Ù… پر مندرجہ ذیل چیزوں کا بیان کرنا ضروری Ú¾Û’:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 next